منفرد رہنے کی ضد میں کیا بچا رہ جائے گا
Poet: ڈاکٹر پروفیسر شکیل اے بھٹی By: ڈاکٹر پروفیسر شکیل اے بھٹی, Karachiمنفرد رہنے کی ضد میں کیا بچا رہ جائے گا
ہم سفر تیرا فقط یہ راستہ رہ جائے گا
دے تو سکتا ہوں میں بھی اپنے دشمن کو جواب
سوچتا ہوں درمیاں پھر فرق کیا رہ جائے گا
ڈٌوب جاؤں گا کسی دن جس قدر آرام سے
اس قدر حیرت سے دریا دیکھتا رہ جائے گا
سوکھ جائیں گے سبھی دریا ہمارے دیس میں
یا تو رہ جائے گی سوہنی یا گھڑا رہ جائے گا
مانگنا بنتا ہے جس سے اس سے گر مانگا نہیں
مانگنے والا یہاں پر مانگتا رہ جائے گا
حوصلے ہی فیصلہ کرتے ہیں ہار اور جیت کا
یا ہوا رہ جائے گی، یا دیا رہ جائے گا
روح کے پنچھی کو اٌڑنا ہے اٌڑے گا ایک دن
جسم کے پنجرے کا اِک دن در کٌھلا رہ جائے
More General Poetry






