محبت کی ساخت
Poet: شاذیہ سلطانہ خانم تخلص شاذ By: شاذیہ سلطانہ , Lahoreاے محبت تو ایسی کیوں ہے
کبھی مخملی کبھی شبنمی
ہمیں گھائل کر دے تیری ہنسی
تیرے رخ پہ غازہ ریشم کا
تیرے اندر نور ہے کرنوں سا
تیرا رنگ ہے رنگیں دھانی سا
تجھے اوڑھ لے کوئی مجھ جیسا
تو ہو جائے وہ بھی تو جیسا
تیرا روپ ہے سندر پریوں سا
تیرے اندر جل تھل ندیوں سا
تیری بولی کومل کوئل سی
تو چال ہے چلتی جھرنوں سی
تو دور کہیں سے اتی ہے
اور اتے ہی چھا جاتی ہے
تیرا رہن بسیرا پربت پر
تیرا جلوہ ہر اک انگ انگ پر
تو ہر اک انکھ میں دیکھتی
اور ہر اک دل کو جھانکتی ہے
تو ہر اک روح کو تکتی ہے
اور اندر تک چھو لیتی ہے
تیری ہیت سب سے جدا جدا
کوئی کیا جانے تو کیسی ہے
تو ٹھوس ہے نہ مائع ہے
تیرے اندر رب سمایا ہے
تو چپکے چپکے اتی ہے
اور اتے ہی چھا جاتی ہے
لوہا کندن بنتا ہے
جب کسی کو تو چھو جاتی ہے
تو پارس ہے تو پارس ہے
ہر ٹوٹے دل کی ڈھارس ہے
تیرا چرچا ہر سو ہوتا ہے
کوئی ہنستا ہے کوئی روتا ہے
دل بہت سوں کا مچلتا ہے
پر سب کا بس کہاں چلتا ہے
جب تو کسی کو ملتی ہے
اور کوئی تجھے پا لیتا ہے
تب وہ امر ہو جاتا ہے
ہو ہو کے نعرے لگاتا ہے
پھر حق کی صدائیں اتی ہیں
اور تیرے ہی گیت گاتی ہیں
رب کی رضا ہے تو
بندے کی پکار ہے
اغاز تیرا بندگی
انجام بندہ کار ہے
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






