محبت اور خواہش میں کئی بے نام رشتے ہیں
Poet: Imran Raza By: Syed Imran Raza, sargodhaمحبت اور خواہش میں کئی بے نام رشتے ہیں
مگر جو غور سے دیکھیں
تو دونوں میں بہت سے فاصلے بھی اِس طرح موجود ہیں جیسے
سمندر ایک ہوتا ہے
مگر اُس کے کنارے ایک دوجے سے سراسر
اجنبی اور مُختلف رستوں کو چُھوتے ہیں
سو ایسا ہے
سمے کے اس سمندر میں
جہاں ہر شے بدلتی ہے
وہاں ہم تم بھی بدلے ہیں بدلنا تھا
کہ رشتے بھی ہمارے عکس کی صورت
بُہت آہستگی سے کروٹ بدلتے ہیں
بسا اوقات بسترپر پڑی چادر پہ سلوٹ تک نہیں پڑتی
نہ آنکھوں میں سفر کرتے پرانے رنگ ہی تبدیل ہوتے ہیں
نہ باتوں کے تسلسل میں کوئی دیوار آتی ہے
بس اتنا ہے
کہ خواہش کی بند مٹھی سے وہ ریت سی پَل پَل
پِھسلتی ہے ، اُسی کے بیچ میں شاید وہ جذبہ بھی کہیں ہوتا ہے
جسے پیار کہتے ہیں
محبت نام ہے جس کا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
ہمیں خود اپنے ہاتھوں سے پِھسلتی ریت کی
ریزش کا اندازہ نہیں ہوتا
مگر وہ گِرتی رہتی ہے
کبھی ہم اُس کو پھر سے جمع کرنے اور اُٹھانے کے لیئے
کوشش بھی کرتے ہیں
مگر دِن رات سرکش ہوائیں
اِس قدر مٹی اڑاتی ہیں کی کچھ بھی ہو نہیں پاتا
یہ دِل فریاد تو کرتا ہے لیکن رو نہیں پاتا
تو وہ آنسو
کہ جِن کو اِس پھسلتی ریت میں بِکھری مُحبت کو
دوبارہ زندگی دینا تھا ، شاداب کرنا تھا
نہیں بہتے
وہی آنکھیں کہ جن میں ہر گھڑی شمعیں سی جلتی تھیں
اُنہی چہروں پہ ہوتی ہیں مگر اُن میں
مُحبت اور تعلق کی پُرانی لو نہیں ہوتی
زمانہ اُن کے اندر سے گُزر کر خود تو جانے کِس طرف جاتا
کہاں بسرام کرتا ہے
مگر اُس کے غُبارِ راہ میں اُلجھے ہوئے رستے
کئی چہرے بدلتے ہیں
محبت کرنے والے شخص اور اُن کی محبت بھی
بدلتے وقت کی یلغار سے بچنے کی خاطر اِک
نئی صورت میں ڈھلتے ہیں
وفا ہارے ہوئے میدان سے جو پرچم اُٹھاتی ہے
اُنہیں لشکر نہیں مِلتا
گزرتے وقت کے آشوب میں چہرہ بدلتا ہے
تو پھر پیکر نہیں ملتا
سو جانِ جاں! اگر ہم تم
بدلتے وقت کی اِس تیز آندھی میں ابھی تک ایک ہیں
اور ایک دوجے کے لیئے بے چین رہتے ہیں
تو شاید بخت کی خوبی ، ہماری خوش نصیبی ہے
کہ ہم دونوں ، گُزرتے وقت کی سر کش روانی میں
بہے ۔ بھٹکے تو ہیں لیکن
ہمارے ساحلوں کا ر ُخ نہیں بدلا
یہ حُسنِ اتّفاق ایسا ہے جو قسمت سے مِلتا ہے
بُہت کڑوا سہی لیکن یہی سب سے بڑا سچ ہے
کہ جو لمحہ گُزر جائے
وہ کتنا بھی مقدس ، قیمتی یا خوبصورت ہو
کبھی واپس نہیں آتا
مُحبت اور خواہش اور اِن کے درمیاں پھیلے ہوئے
بے نام رشتے بھی اُنہی چیزوں میں شامل ہیں
جنہیں یہ وقت کا دریا
ہمارے چاہنے، نا چاہنے سے بے نیاز و بے خبر ہو کر
پُرانی ڈائری، پِچھلے کیلنڈر کی طرح تبدیل کرتا ہے
اِس اِک معجزہ کہیئے
کہ خواہش کے سفر میں ہم نے جتنے موڑ کاٹے
جِس قدر ہوار بدلے ہیں
وہ سب اِک ساتھ بدلے ہیں
نہ گرتی ریت بدلی ہے نہ اپنے ہاتھ بدلے ہیں
اِسے ایک معجزہ کہیے
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں








