Add Poetry

غوغائے جشن عید اور نالہ یتیم

Poet: Fida Hussain By: Fida Hussain, srinagar

یہ کھلکھلاتے چہرے
یہ سہانے منظر
مصائب کی آند ھیوں میں
ٹمٹماتے ہوئے خوشیوں کے چراغ
یاس و نا امیدی کے آنگن میں
امید افزا اطفال کا غل
نغمہ و سرود کی محفل
فرطِ مسرت میں جھومتے مچلتے دل
غمِ دنیا سے دور
فکرِ آخرت سے پرے
یہ کبوترون کے جھنڈ جیسے
انسانی قافلے
منزل ِ عیش کی جانب محو پرواز
رنج نے بھی آج پہن کر راحت کا لباس
فرزندانِ عیش و مستی کی بیعت کی ہے
مگر بہار ِ عید میں
خزانِ الم کے کہر سے دو چار
آنکھوں میں منجمد آنسو لئے
پھٹے ہوئے ہونٹ ، مر جھایا ہوا چہرہ
بکھرے ہوئے بال سر پر
مفلس کی جھونپڑی کا چھپر ہو جیسے
غربت کی چوکھٹ پر
بیٹھا ہوا کسی کے انتظار میں ،اک یتیم
سر بگریباں
حقیقت سے مفرور خیالوں میں گم
دفعتاً
خیال کی رہگزر سے
وہ منتَظر آتا ہوا آیا نظر
قربِ یتیم یوں ہوا گویا
اےمیرے اجڑے ہوئے چمن کے
غنچہ پژمردہ
لو---
میں آیا ہوں تہمہیں بہلانے کے لئے
زخمِ دل کو مرہم لگانے کے لئے
یتیم بھی شکوہ سنج ہوا
کہاں تھے تم
کیوں نہ لی آج تک میری خبر؟
شفقت کا بھوکا ہوں
عاطفت کا پیاسا ہوں
کیا تمہیں معلوم نہ تھا؟
نہیں چاہئے مجھے جو بھی تم لائے ہو
بڑی مدت کے بعد آج ، تم آئے ہو
تم سے میں روٹھا ہوں
مجھ کو تم پیار نہ دو
بڑی مشکل سے
پدرِ گم گشتہ نے
اپنے لاڈلے کو منوایا
گود میں لے کر جو پھٹے ہونٹوں کو چوما
لہو کی لالی اس کے ہونٹوں پر بھی چڑھی
پسر کے اشک منجمد بہنے لگے
پدر کے سانسوں کی گرماہٹ سے
اتنے میں قریب ہی پٹاخوں کے
پھٹنے سے
کھل گئی یتیم کی آنکھ
ٹوٹا خیالی طلسم
خواب ہی سہی راحت رساں تھا
سراب ہی سہی کوثر نشاں تھا
ٹوٹا جو خواب
ہوا نالہ یتیم بلند
مگر غوغائے جشن عید کے طفیل
یہ نالے کس کے گوش گزار ہوئے ؟
صدا بصحرا ہوئے
غیب سے آئی آواز
فامالیتیم فلا تقہر
وامالسایل فلا تنھر
 

Rate it:
Views: 703
20 Jul, 2015
Related Tags on Occassional / Events Poetry
Load More Tags
More Occassional / Events Poetry
غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر غالب و اقبال ہوں نہ رُوحِ میر
تذکرہ اجداد کا ہے نا گزیر
بھُول سکتا ہوں نوشہرہ کس طرح
جس کی مِٹّی سے اُٹھا میرا خمیر
پکّی اینٹوں سے بنی گلیوں کی شان
آج تک ہوں اسکی یادوں کا اسیر
دُور دُور تک لہلہاتے کھیت تھے
آہ وہ نظّارہ ہائے دلپذیر
میرے گھر کا نقشہ تھا کچھ اس طرح
چند کمرے صحن میں منظر پذیر
صحن میں بیت الخلا تھی اک طرف
اور اک برآمدہ بیٹھک نظیر
صحن میں آرام کُرسی بھی تھی ایک
بیٹھتے تھے جس پہ مجلس کے امیر
پیڑ تھا بیری کا بھی اک وسط میں
چار پائیوں کا بھی تھا جمِّ غفیر
حُقّے کی نَے پر ہزاروں تبصرے
بے نوا و دلربا میر و وزیر
گھومتا رہتا بچارا بے زباں
ایک حُقّہ اور سب برناؤ پیر
اس طرف ہمسائے میں ماسی چراغ
جبکہ ان کی پشت پہ ماسی وزیر
سامنے والا مکاں پھپھو کا تھا
جن کے گھر منسوب تھیں آپا نذیر
چند قدموں پر عظیم اور حفیظ تھے
دونوں بھائی با وقار و با ضمیر
شان سے رہتے تھے سارے رشتے دار
لٹکا رہتا تھا کماں کے ساتھ تیر
ایک دوجے کے لئے دیتے تھے جان
سارے شیر و شکر تھے سب با ضمیر
ریل پیل دولت کی تھی گاؤں میں خوب
تھوڑے گھر مزدور تھے باقی امیر
کھا گئی اس کو کسی حاسد کی آنکھ
ہو گیا میرا نوشہرہ لیر و لیر
چھوڑنے آئے تھے قبرستان تک
رو رہے تھے سب حقیر و بے نظیر
مَیں مرا بھائی مری ہمشیرہ اور
ابّا جی مرحوم اور رخشِ صغیر
کاش آ جائے کسی کو اب بھی رحم
کر دے پھر آباد میرا کاشمیر
آ گیا جب وقت کا کیدو امید
ہو گئے منظر سے غائب رانجھا ہیر
 
امید خواجہ
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets