غزل

Poet: عدیل الرحمن سائر By: Adeel Ur Rehman sair, Sargodha

میرے پاس تھا تُو، مگر میرا نہ تھا
یوں آنکھیں پھیر لے گا سوچا نہ تھا

وفا کے سبھی معنی وہ جانتا تھا
مگر آنکھوں میں کوئی جذبہ نہ تھا

تیرے لیے سب کچھ بھلا بیٹھے ہم
پھر بھی تُو کسی طور ہمارا نہ تھا

جب تُو گیا، تو یوں ٹوٹا اندر
جیسے مقدر میں کچھ بچا نہ تھا

کیوں ہر قدم پر بدلتا رہا وہ
اس کو یاد کوئی وعدہ نہ تھا؟

چاہا تھا تُو بھی بس اتنا ہی چاہے
پر تُو نے مجھ کو کبھی چاہا نہ تھا

کتنی دعائیں مانگی تھیں تیرے لیے
مگر تو شاید نصیب میں لکھا نہ تھا

اک بار تو بھی پلٹ کر کہتا
ہجر کا فیصلہ بس تمہارا نہ تھا

کہنے کو تھی باتیں بے شمار دل میں
مت سوچ تجھ پر بھروسہ نہ تھا

یادوں نے ہر موڑ پہ آ کر روکا
اس کو دل نے مگر بھلایا نہ تھا

تم چلے جاؤ یوں تنہا چھوڑ کر
ایسا تو میرا کوئی ارادہ نہ تھا

ہجر کی راتوں میں بھی یہ ظرف رکھا
پکارا تجھ کو، مگر نام تیرا لیا نہ تھا

لوٹ آتا، تو شاید معاف بھی کردیتا
ہمارے صبر کا دامن اتنا چھوٹا نہ تھا

تیری نظر سے گر کر بھی سنبھل گئے
یہ ہنر ہر کسی کے بس کا نہ تھا

سائر اسے کھونے کا غم تو رہا
مگر اس کے جانے کا گلہ نہ تھا

Rate it:
Views: 5
08 Aug, 2025
More Love / Romantic Poetry