وہ شخص
میرے ہی لشکر سے غداری کر گیا
جس کے لیے
ہر جنگ لڑی
ہر تیر کھایا
ہر زخم سہا
میں نے سوچا تھا
کہ جیت کی آخری شام
اس کے نام کی جائے گی
تخت پر بیٹھے گا وہ
اور میں
بس ایک سپاہی کی طرح
مسکرا کر پیچھے ہٹ جاؤں گا
مگر وہ
چالاکی سے الگ ہوا
میرے ہی خیمے سے
میرے ہی خوابوں سے
نہ کوئی اشارہ
نہ الوداعی لفظ
بس ایک خنجر
میرے یقین کی پشت میں
میں حیران کھڑا تھا
خود کی بنائی سلطنت میں
جہاں تاج بھی تھا
تلوار بھی
میں نے جس کی خاطر
اپنی ذات کو بھلا دیا
وہی
میری پہچان مٹا گیا
اب ہر فتح شکست لگتی ہے
اور ہر خواب
اک سازش کا کمرہ
اور میں
ایک بےنام سپاہی
جو اپنی ہی صفوں میں تنہا ہو گیا
جو فتح کے دن بھی ہارا ہوا ہے
اور وہ
جس کی سلطنت کو میں نے خوابوں میں سینچا
میرے ہی ملبے پر
اپنا پرچم گاڑ گیا
اب نہ میں سپاہی ہوں
نہ سپہ سالار
نہ ہی بادشاہ
بس ایک خالی وجود
اب میں اپنی ہی سلطنت کے کھنڈرات میں
خود کو ڈھونڈتا ہوں
اک روز شاید
کوئی اور آئے گا
میری راکھ کو چھو کر
میرے خوابوں کی گواہی دے گا
اور تب وہ جان پائے گا
کہ غداری کیا ہوتی ہے
جب دشمن باہر نہیں
دل کے اندر پلتا ہو