شاعری سے بھی
Poet: رشید حسرت By: رشید حسرت, Quettaلرز رہا ہے بدن خون کی کمی سے بھی
ملال تھوڑا سا ہے اسکی بے رخی سے بھی
کھرے نہ اترے کسی عشق امتحان میں ہم
گئے سو اب کے محبت رہی سہی سے بھی
سراب ابکے نیا روپ لے کے آیا ہے
اندھیرے پھوٹ پڑے اب تو روشنی سے بھی
کبھی تو خار بھی راحت کا بن گئے ساماں
لگے ہیں زخم کبھی پھول کی کلی سے بھی
نکال پھینکا جو معمول سے تمہیں ہم نے
اسی طرح سے نکالیں گے زندگی سے بھی
یہ کیا کہ پھر سے اُسی در پہ لوٹ آئے ہیں
جو منہ بنائے ملو جتنا عاجزی سے بھی
منا کے لا نہ سکے جس کے بل پہ دوست، رشیدؔ
تو لینا کیا ہے بھلا ایسی شاعری سے بھی
More Sad Poetry






