سفرِ حیات
Poet: Shaikh Khalid Zahid By: Shaikh Khalid Zahid, Karachiچلو کچھ اور نہیں
سفرِحیات لکھتا ہوں
اور وہ بھی جہاں سے تم ساتھ ہو
وہ حالات لکھتا ہوں
پہلے پہل تم سے ۔۔۔کب ملا تھا
تم کن رنگوں میں ملبوس تھیں
اور میں نے کیا پہنا تھا
کیا ہم یونہی ملے تھے
یا تم سے کوئی کام تھا مجھکو
تم سے تمھارے بارے میں پوچھاتھا
مجھے یوں لگ رہا ہے کہ جےسے
ہم ایک دوسرے کو جانتے تھے
اس جان پہچان بڑھانے کو
ہم کہیں اور ملے تھے
تم پہلے سے موجود تھیں وہاں
میرے انتظار میں مبتلا
ذرا دیکھو میں نے آج تک نہیں پوچھا میرا انتظار کیسا تھا
خاموشی سے میری۔۔۔ تم پریشان سی تھیں
میں اس ملاقات پر حیران تھا
باتیں کیا ہوئیں تھیں ۔۔۔اب مجھ کو یاد نہیں
ہاں ہم نے کسی فوڈ کورٹ میں بیٹھ کر کچھ کھایا تھا
اب مجھے یاد آیا!
تم نے مجھے میری سالگرہ پر کہیں باہر بلایا تھا
خوبصورت سے پھولوں کا تحفہ بھی دیا تھا
دوپہر سے کچھ کچھ شام ہوئی تھی
بہت خالی خالی سی ہماری ملاقات ہوئی تھی
زندگی ہمارے ساتھ ہوئی تھی
شام رات کے پہلو میں سونے کو تھی
دن ڈھلنے سے پہلے تمھیں بھی لوٹ جانا
میرا بھی کہیں اور ٹھکانا تھا
یاد ہے مجھے ۔۔۔تم سے بجھڑتے ہوئے
یہ احساس ہورہاتھا ۔۔۔سورج کہ ساتھ ساتھ
سفرِ حیات تمام ہوا چاہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔







