رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے
Poet: جون ایلیا By: Umair Khan, Sialkot
رنج ہے حالت سفر حال قیام رنج ہے 
 صبح بہ صبح رنج ہے شام بہ شام رنج ہے 
 
 اس کی شمیم زلف کا کیسے ہو شکریہ ادا 
 جب کہ شمیم رنج ہے جب کہ مشام رنج ہے 
 
 صید تو کیا کہ صید کار خود بھی نہیں یہ جانتا
 دانہ بھی رنج ہے یہاں یعنی کہ دام رنج ہے 
 
 معنئ جاودان جاں کچھ بھی نہیں مگر زیاں 
 سارے کلیم ہیں زبوں سارا کلام رنج ہے 
 
 بابا الف مری نمود رنج ہے آپ کے بقول 
 کیا مرا نام بھی ہے رنج ہاں ترا نام رنج ہے 
 
 کاسہ گداگری کا ہے ناف پیالہ یار کا 
 بھوک ہے وہ بدن تمام وصل تمام رنج ہے 
 
 جیت کے کوئی آئے تب ہار کے کوئی آئے تب 
 جوہر تیغ شرم ہے اور نیام رنج ہے 
 
 دل نے پڑھا سبق تمام بود تو ہے قلق تمام 
 ہاں مرا نام رنج ہے ہاں ترا نام رنج ہے 
 
 پیک قضا ہے دم بہ دم جونؔ قدم قدم شمار 
 لغزش گام رنج ہے حسن خرام رنج ہے 
 
 بابا الف نے شب کہا نشہ بہ نشہ کر گلے 
 جرعہ بہ جرعہ رنج ہے جام بہ جام رنج ہے 
 
 آن پہ ہو مدار کیا بود کے روزگار کا 
 دم ہمہ دم ہے دوں یہ دم وہم دوام رنج ہے 
 
 رزم ہے خون کا حذر کوئی بہائے یا بہے 
 رستم و زال ہیں ملال یعنی کہ سام رنج ہے






