دو گانا (گیت)
Poet: N A D E E M M U R A D By: N A D E E M M U R A D, UMTATA RSAگیت (دوگانا)
لڑکا
مت تغافل برتئیے
اپنا دل دے دیجئیے
جام الفت پی جئیے
پیار مجھ سے کیجئیے
لڑکی
جایئے جی جایئے
آئینہ تو دیکھئے
بات کرنا سیکھئے
پھر مرے پاس آیئے
لڑکا
دل تجھی کو ہے دیا
تو ہی ہے میرا پیا
مان اب تو جایئے
اپنا دل دے دیجیئے
لڑکی
اور بھی آئے بہت
منہ کی سب کھائے بہت
تنگ مت اب کیجیئے
جایئے جی جایئے
لڑکا
جب سے دیکھا ہے تجھے
پیار تجھ سے ہے مجھے
دل مرا مت توڑیئے
اپنا دل دے دیجیئے
لڑکی
لڑکی میں ایسی نہیں
لڑکوں سے ملتی نہیں
اور کوئی ڈھونڈئیے
جایئے جی جایئے
لڑکا
تو بنے میری دلہن
ہے یہ ہی میری لگن
مت مجھے دھتکاریے
اپنا دل دے دیجئیے
لڑکی
ہے اگر ایسا تو پھر
آپ کی ہوں میں مگر
اپنی ماں کو بھیجئیے
استخارہ کیجئیے
لڑکا لڑکی دونوں مل کے
الفتوں کا ساتھ ہے
عمر بھر کی بات ہے
دل کو دل سے راہ تھی
تو ہمیں منزل ملی
نغمے مل کے گائیے
مسکراتے جائیے
آئیے جی آیئے
گیت میٹھے گائیے
آئیے جی آئیے
(جناب ڈاکٹر زاہد شیخ صاحب کی تحریک نغمہ نگاری سے متاثر ہوکر)
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے
دِل کو لاچار کر دیا گیا ہے
خواب دیکھے تھے روشنی کے مگر
سب کو اَنگار کر دیا گیا ہے
ہر سچ کہنے پر ہم بنَے دوچار
ہم کو دوچار کر دیا گیا ہے
ذِکرِ حَق پر ہوئی سزا اَیسی
خونِ اِظہار کر دیا گیا ہے
حوصلے ٹوٹنے لگے دِل کے
جِسم بیکار کر دیا گیا ہے
عَدل غائِب ہے، ظُلم حاکم ہے
خَلق سَرکار کر دیا گیا ہے
ہر طرف بڑھ رَہی ہیں دیواریں
راہ دُشوار کر دیا گیا ہے
اپنے تخلص سے کہہ رہا ہوں میں
مظہرؔ بےکار کر دیا گیا ہے
اگر دل ہے تو وفا یوں کر ملے دل کو سکوں دل سے
جفاکاروں٬فاداروں بتاؤ تو ہوا حاصل
بتایا تھا تمہیں بھی تو نہیں اچھا فسوں زن کا
بھلا ہی دی گئی چاہت ہماری سو وفا کو ہم
برا کہتے نہیں ہیں ہم مگر اچھوں کا یوں کرنا
دعا بھی ہے دوا بھی ہے شفا بھی ہے سزا بھی ہے
ملے تو ہے سکوں دل کو ملے نا تو جنوں دل کا
لٹا کر آ گیا ہوں میں سبھی اپنا متاع دل
ہمارے دامنوں میں اب نہیں کچھ بھی زبوں ہے دل






