درِ سجدہ پہ سوال
Poet: مرزا عبدالعلیم بیگ By: مرزا عبدالعلیم بیگ, Pakistanکیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
جو ہر سجدے پہ خاک ڈال گئی
میں جھکتا رہا امید میں
کہ بندگی میں کچھ بھلا ہو
مگر ہر بار
میرے سجدے بے آواز لوٹے
میری دعائیں ٹھکرا دی گئیں
میرے جذبے، میری وفائیں
اور میرے لبوں کی لرزش
بغاوت ٹھہری
میں بکھر گیا
کبھی خوف کے زخم میں
کبھی اطاعت کی زنجیر میں
میں اب نہ جھکتا ہوں
نہ مانگتا ہوں کسی در سے روشنی
میں نے جان لیا
کہ بندگی جب اندھی ہو
تو عبادت نہیں بنتی
بس غلامی رہ جاتی ہے
اب میں سجدہ کرتا ہوں
مگر کسی اَن دیکھے خدا کو نہیں
اب میں سوال کرتا ہوں
لیکن ضمیر سے
اور جان چکا ہوں
کہ میرا سچ اگر خاموش بھی ہو
تب بھی زندہ ہے
خدا کی طرح
میرے اندر
ابدی
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






