دربارِ شاہ میں یوں نہ سر کو جھکا کے بیٹھ
اے دوست اٹھ فقیر کی محفل میں آ کے بیٹھ
مت رو، گزار دھوپ کو بادل کی اوٹ سے
بن جائے گی دھنک تُو ذرا مسکرا کے بیٹھ
پاتے ہیں ماہتاب کی لو سے مٹھاس پھل
نادان اس کی نظروں سے نظریں ملا کے بیٹھ
چہرہ اگر ہے آئنہ تو آنکھ جھیل ہے
ہر عکس میں خلوص کا منظر سجا کے بیٹھ
جب آستیں کے سانپ کا ڈسنا سرشت ہے
پھر تُو بھی آستین میں خنجر چھپا کے بیٹھ
کیسی ہوا چلی ہے کہ رقصاں ہے پھول پھول
تھوڑی سی بھی حیا ہو تو آنکھیں چرا کے بیٹھ
ابلیس کی بساط پہ شطرنج کھیل جا
باطل کا مہرہ نعرۂ حق سے گرا کے بیٹھ
ماتم کا سلسلہ نہ رکے بعد مرگ بھی
میری لحد پہ بلبلِ رنجیدہ آ کے بیٹھ
الفاظ بے معانی ہیں کچھ زندگی میں زین
جو اٹھ گئے ہیں نقطے مکرر بٹھا کے بیٹھ