رہے ہیں پیشِ نظر بس خیال کے سکّے
اٹھا کے لے گیا کاسہ وہ ڈال کے سکّے
وہ زر شناس بظاہر تھا کوئی شہزادہ
رکھے ہیں جیب میں واپس، نکال کے سکّے
کہ بھیڑ کھال میں اک بھیڑیا ہے پوشیدہ
چلیں گے اب نہ مگر اس کی چال کے سکّے
کرے نثار جو بچوں کو مال و دولت پر
وہ اپنی قبر میں رکھے سنبھال کے سکّے
نگر میں ایک مداری عجیب آیا ہے
مہک بکھیرے جو پھولوں میں ڈھال کے سکّے
بس ان سے کوئی ہمیں انتخاب کرنا تھا
چنیں وفائیں اسیروں نے ٹال کے سکّے
کہاں کو جائیں ابھی فیصلہ نہ کر پائے
کریں گے طے یہ رشیدؔ اب اچھال کے سکّے