بھیڑ میں لوگوں کی کھو کر دیکھئے
خود کو خود سے دور ہوکر دیکھئے
رنگ بدلے گا ہزاروں آئینہ
بے ضرورت بھی تو رو کر دیکھئے
پیٹھ خالی سر جھکا آنکھوں میں اشک
جاگتی آنکھوں سے سو کر دیکھئے
مل ہی جائے گا کبھی اپنا سراغ
دل کبھی زم زم سے دھوکر دیکھئے
صحن ہے گھر میں اگا لینا گلاب
گل کبھی صحرا میں بوکر دیکھئے
چکھ لیا وشمہ مزا پھولوں کا خوب
چند کانٹے بھی چھبو کر دیکھئے