خواب
Poet: kanwal naveed By: kanwal naveed, karachiمیری تنہائی کی رات ہے
خود سے جاری یہ بات ہے
جانتی ہوں تو اداس ہے
مجھے اس کا احساس ہے
نہیں ہوں میں چاہت تیری
غارت کروں راحت تیری
تیری شکایات کے انبار ہیں
سننے کو ہم تیار ہیں
اگرچہ روح کو تڑپائیں گی
تیری باتیں ہمیں ستائیں گی
مگر پھر بھی ہے آرزو
کہ ہو تجھ سےگفتگو
بے بسی کی انتہا ہے
جب جنون کو نہ راہ ملے
کسی کا ساتھ چاہوں تو
تنہائی ملے سزاملے
وفا کروں دغاملے
بھلائی کی نہ جزا ملے
میرے جیسے مریض کو
نہ دوا ملے نہ دعا ملے
یہ کیسے لفظ ہیں
میرے وجود کو ہیں چاٹ رہے
میری حسرتوں کو توڑ کر
میرے وجود کو ہیں بانٹ رہے
ٹکڑے ٹکڑے ذات کو
سمیٹنے کے در پر ہوں
خود سے ہوں بے خبر
کون ہوں کس کے گھر میں ہوں
مگر پھر بھی ہے جستجو
کہ ہو تجھ سے گفتگو
آج پھر سے ممکن ہے
ہوں ہم تم دو بدو
تیر جیسے الفاظ تیرے
اتریں میری زات میں
پھر سے مخل ہو جائے تو
میری تنہائی کی رات میں
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






