حُسن کی تعریف
Poet: طارق اقبال حاوی By: Tariq Iqbal Haavi, Lahoreاُس نے پوچھی ہے مجھ سے اپنے حُسن کی تعریف
غزل کی صورت مجھے اس کا جواب لکھنا ہے
مجھے لکھنا ہے اسکی آنکھ کو گہرا ساگر
اس کے چہرے کو کِھلتا گلاب لکھنا ہے
مجھے لکھنا ہے اسکے گالوں کو نکھرے بادل
اس کے ماتھے کو دمکتا ماہتاب لکھنا ہے
اس کی بالی کو لکھنا ہے حور کا جُھولا
اس کی بندیا کو روشن آفتاب لکھنا ہے
مجھے لکھنا ہے اسکے ہونٹوں کو ثمرءجنت
پلکوں کو دو جہاں کا حجاب لکھنا ہے
اس کی ذولفوں کو لکھنا ہے مخملی چادر
اس کی آواز کو سُریلا رُباب لکھنا ہے
کرنیں سورج کی لکھنا ہے اسکی مہندی کو
اس کی ہتھیلی پہ ہونٹوں سے آداب لکھنا ہے
اس کی چال کو لکھنا ہے گھڑی کی ٹِک ٹِک
اور ہر ٹِک ٹِک پہ حالِ دلِ بیتاب لکھنا ہے
مجھے کرنا ہے ذکر چاند اور گرہن کابھی
وہ جو اوڑھتی ہے اسکا نقاب لکھنا ہے
اس کی قربت کو لکھنا ہے بہار کا موسم
اس کے لمس کو قیامت کا باب لکھنا ہے
اس کے لہجے کو لکھنا ہے مارچ کی ہَوا
ہر انداز کو شاعر کا خواب لکھنا ہے
بِنا اس کے کیا لکھیں حالِ دل حاوی
اپنی حسرتوں کو ماہی بے آب لکھنا ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






