حصارِ ذات سے لیکن رہائی ہو نہیں پائی

Poet: UA By: UA, Lahore

تمہاری یادوں سے دل کو رہائی ہو نہیں پائی
پرائی ہو کے میں تم سے پرائی ہو نہیں پائی

تمہارے میرے درمیان صدیوں کی مسافت ہے
ہمارے درمیاں لیکن جدائی ہو نہیں پائی

سنا ہے چاہنے والوں کے دشمن ہیں جہاں والے
مگر دشمن میری ساری خدائی ہو نہیں پائی

سب کے واسطے میں نے ہمیشہ سے بھلا سوچا
فقط اپنے لئے مجھ سے بھلائی ہو نہیں پائی

مجھے اچھا نہیں کہتا بھلے سے نہ کہے کوئی
کسی کی میرے دل سے پر برائی ہو نہیں پائی

ستم میں نے جہاں والو! اٹھائے ہیں کئی لیکن
نہیں تھا حوصلہ مجھ میں دہائی ہو نہیں پائی

حدوں سے پار کی دنیائیں ہم بھی دیکھتے عظمٰی
حصارِ ذات سے لیکن رہائی ہو نہیں پائی

Rate it:
Views: 463
20 Feb, 2014