جاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
Poet: سید مجتبی داودی By: سید مجتبی داودی, Karachiجاتا ہے بھرم زیست کا اے دیدہ تر جائے
 موتی کی طرح برگ پہ شبنم تو نکھر جائے
 
 لمحوں کے تسلسل سے ہے حرکت کا تسلسل
 لمحے جو ٹھہر جائیں تو حرکت بھی ٹھہر جائے
 
 اس طفل کی مانند ہوئی جاتی ہے ہستی
 جو طفل کہ ہر خواب سے ہر بات سے ڈر جائے
 
 بڑھتی ہے تھکن اور بھی احساس سفر سے
 آرام سفر آئے جب احساس سفر جائے
 
 یوں دیر تلک ساحل دریا پہ نہ بیٹھے
 شاعر سے کہو شام ہوئی جاتی ہے گھر جائے
  
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
 
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






