تیری چاہت میری معصومیت پہ چھائے جاتی ہے
Poet: Maria ghouri By: Maria Ghouri, Haroonabadتیری چاہت میری معصومیت پہ چھائے جاتی ہے
طبیعت ان دکھے طوفان سے گھبرائے جاتی ہے
میں تیری آرزو کے شہر میں اب بھی پریشاں ہوں
جنوں کی انتہا اک آگ سی دھکائے جاتی ہے
تمہارا نام کیا جاگا تمنا کے جزیروں میں
میری ہر اک ادا خود مجھ سے بھی شرمائے جاتی ہے
میری جاں جب سے ڈوبی ہوں میں اس خاموش الفت میں
میری تو روح بھی ہر بزم سے اکتائے جاتی ہے
مجھے اب بھی محبت کی وہ بانہیں یاد آتی ہیں
تبھی تو ہر گھڑی وہ جنتیں دکھلائے جاتی ہے
فقط سوچیں نہیں ہمدم فقط نیندیں نہیں ہمدم
تمہاری ذات میری ہر گھڑی پہ چھائے جاتی ہے
میں جب بھی سوچنے لگتی تیرے پیار کو جانی
محبت کی تڑپ اک آئینہ دکھلائے جاتی ہے
یہ موسم کس قدر رمان پرور ہے مگر دوری
یہ دوری وصل کی خواہش کے آڑے آئے جاتی ہے
تمہارے لفظ تیری ماریہ کو یوں لبھاتے ہیں
کہ اک انجان سی خواہش مجھے تڑپائے جاتی ہے
یہ دوری کھائے جاتی ہے غضب سا ڈھائے جاتی ہے
مگر احساس کی نرمی مجھے سہلائے جاتی ہے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






