تیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے
Poet: عمار اقبال By: Tanveer, Hyderabadتیرگی طاق میں جڑی ہوئی ہے
دھوپ دہلیز پر پڑی ہوئی ہے
دل پہ ناکامیوں کے ہیں پیوند
آس کی سوئی بھی گڑی ہوئی ہے
میرے جیسی ہے میری پرچھائیں
دھوپ میں پل کے یہ بڑی ہوئی ہے
گھیر رکھا ہے نارسائی نے
اور خواہش وہیں کھڑی ہوئی ہے
میں نے تصویر پھینک دی ہے مگر
کیل دیوار میں گڑی ہوئی ہے
ہارتا بھی نہیں غم دوراں
ضد پہ امید بھی اڑی ہوئی ہے
دل کسی کے خیال میں ہے گم
رات کو خواب کی پڑی ہوئی ہے
More Ammar Iqbal Poetry






