بے غرض جھکی پلکیں ۔ بے ساختہ سجدے ہیں
Poet: muhammad nawaz By: muhammad nawaz, sangla hillرگ رگ میں خون مچلا ۔ نس نس نے ہوا مانگی
دیوانگی نے اب کے یہ کس کی ادا مانگی
دونوں نے اپنی اپنی فطرت نبھائی دل سے
تو نے بھی ستم ڈھائے میں نے بھی دعا مانگی
چلمن گرا کے تم تو منظر سے ہٹ گئے تھے
پھر کس کے دریچوں سے کرنوں نےبقا مانگی
قسمت کے ستاروں پہ سہرے سے لگے سجنے
ہاتھوں کی لکیروں نے یوں بوئے حنا مانگی
پت جھڑ کےموسموں سے اتنی تو خبر لاؤ
پھولوں سے چوری چوری کس کس نے حیا مانگی
بے غرض جھکی پلکیں ۔ بے ساختہ سجدے ہیں
بے لوث عقیدت ہے کب ہم نے جزا مانگی
رحمت تھی جوش پر تو کہتے کہ شوق دے دو
عمر دراز تم نے مانگی بھی تو کیا مانگی
بس چاہتا ہوں مجھ سا تم پر بھی ہجر بیتے
وہ وصل کی عنایت کب میں نے بتا مانگی
دیکھو تو میں نے ابر باراں کو پکارا ہے
سمجھو تو بے خودی میں زلفوں کی گھٹا مانگی
روئے فلک پہ انجم نالاں سے لگ رہے ہیں
بس دیکھنے کو کچھ دن جنت تھی ذرا مانگی
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






