بھرم ضبط کا توڑ جاتے ہیں آنسو

Poet: توقیر اعجاز دیپک By: زروا بتول, Bangkok

بھرم ضبط کا توڑ جاتے ہیں آنسو
یونہی بیٹھے بیٹھے جو آتے ہیں آنسو

لبوں پہ مرے چپ کے تالے پڑے ہیں
مگر داستانیں سناتے ہیں آنسو

صدا ہجکیوں کی اگر دب بھی جاۓ
تو کہرام سا اک مچاتے ہیں آنسو

جو سوجن سے آنکھیں ہی کھلتی نہیں ہیں
کہاں سے سفر کر کے آتے ہیں آنسو

جو خونِ محبت ہوا برسوں پہلے
اسی کا تو ماتم مناتے ہیں آنسو

چمن چاہتوں کا مہکتا ہے اب بھی
کہ ہم روز اس کو پلاتے ہیں آنسو

فلک کانپ اٹھتا ہے سن لے اے ظالم
کہ معصوم جس دم بہاتے ہیں آنسو

یہ مٹی بناتی ہے بت ان کے دیپک
کہ ہم بس زمیں پہ گراتے ہیں آنسو
 

Rate it:
Views: 65
27 Jan, 2025