برسوں پہلے ایک خواب میں نے دیکھا تھا
Poet: ارشد ارشی By: Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachiبرسوں پہلے ایک خواب میں نے دیکھا تھا
ایک حسین پھولوں کی وادی تھی
جہاں خوبصورت تتلیاں اور جگنو تھے
وہ تتلیوں کو ہاتھوں میں بند کرکے اڑاتی تھی
میں پھولوں کو چن کر ایک گلدستہ بناتا تھا
اسے جب پیش کرتا تھا وہ بہت مسکراتی تھی
پھر ایک بینچ پھر بیٹھ کر سورج ڈھلنے کا انتظار کرتے تھے
اندھیرا ہوتے ہی بہت سارے جگنو وہاں پرواز کرتے تھے
میری جب آنکھ کھلی تو میں بہت اداس ہوا تھا
مجھے اس وادی میں رہنا تھا اس سے باتیں کرنی تھیں
مدتوں بعد کل رات میں نے پھر وہی خواب دیکھا تھا
وادی تو وہی تھی مگر منظر بہت اداس دیکھا تھا
پھول سارے گر گئے اور پودے سوکھے ہوئے تھے
مردہ تتلیوں کے پر ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے
وہ جگنو سارے اب مر چکے تھےاس بینچ کو بھی گھن لگا تھا
گھپ اندھیرا تھا اور میں بھی تنہا تھا
اب میں چاہتا تھا کہ میری آنکھ کھل جائے
مجھے اب اپنی دنیا میں واپس جانا تھا
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






