بدلتے محور
Poet: Sadaf Ghori By: Sadaf Ghori, Quettaکبھی ماضی کے خوابوں میں
کبھی جو کھو جاؤں تو یہ دیکھوں
کبھی تم جان ہوتے تھے
میرا تم مان ہوتے تھے
کہاں پھر جا بسے جاکر
نجانے چھوڑ کر مجھکو
میں تنہائی میں بکھری تو
مجھکو لفظوں کی بانہوں نے
سہارا دے دیا اس دم
میری ہنستی کی نہیہ کو کنارا دے دیا اس دم
بہے آنسو تو لفظوں نے
ہتھیلی بن کے بہلایا
ہوئی تنہا تو، حرفوں نے گلے میں ڈال دی بانہیں
میری سوچوں کو رنگوں سے
مزین لفظ کرتے ہیں
یہ بس جائیں جو دل میں تو
حسین خوابوں میں ڈلتے ہیں
میں تنہا جب بھی ہوتی ہوں
یہ میرے ساتھ چلتے ہیں
میرے ہونٹوں پہ یہ سج کے
ہنسی کے گل کھلاتے ہیں
جو شب کو نیند نہ آۓ
میرے جب خواب جلتے ہیں
تو پھر یہ لفظ ہی آ کر
نئ اک نظم بنتے ہیں
کبھی غزلوں میں ڈلتے ہیں
صدف پاتال سے ابھری
انہی لفظوں کی طاقت سے
گئ عرش بریں تک پھر
کبھی وہ میرا محور تھا
وہی میرا زمانہ تھا
اور اب میں سب کا محور ہوں
میرا سارا زمانہ ہے
میرے دل کو ہر لمحہ تیرے ہونے کا خیال آتا ہے
تیری خوشبو سے مہک جاتا ہے ہر خواب میرا
رات کے بعد بھی ایک سہنا خواب سا حال آتا ہے
میں نے چھوا جو تیرے ہاتھ کو دھیرے سے کبھی
ساری دنیا سے الگ تلگ جدا سا ایک کمال آتا ہے
تو جو دیکھے تو ٹھہر جائے زمانہ جیسے
تیری آنکھوں میں عجب سا یہ جلال آتا ہے
میرے ہونٹوں پہ فقط نام تمہارا ہی رہے
دل کے آنگن میں یہی ایک سوال آتا ہے
کہہ رہا ہے یہ محبت سے دھڑکتا ہوا دل
تجھ سے جینا ہی مسعود کو کمال آتا ہے
یہ خوف دِل کے اَندھیروں میں ہی رہتا ہے
یہ دِل عذابِ زمانہ سہے تو سہتا ہے
ہر ایک زَخم مگر خاموشی سے رہتا ہے
میں اَپنی ذات سے اَکثر سوال کرتا ہوں
جو جُرم تھا وہ مِری خامشی میں رہتا ہے
یہ دِل شکستہ کئی موسموں سے تَنہا ہے
تِرا خیال سدا ساتھ ساتھ رہتا ہے
کبھی سکوت ہی آواز بن کے بول اُٹھے
یہ شور بھی دلِ تنہا میں ہی رہتا ہے
یہ دِل زمانے کے ہاتھوں بہت پگھلتا ہے
مگر یہ درد بھی سینے میں ہی رہتا ہے
ہزار زَخم سہے، مُسکرا کے جینے کا
یہ حوصلہ بھی عجب آدمی میں رہتا ہے
مظہرؔ یہ درد کی دولت ہے بس یہی حاصل
جو دِل کے ساتھ رہے، دِل کے ساتھ رہتا ہے






