دیکھا نہ گیا اجڑا نگر دیدۂِ تر سے
تھی اتنی گھٹن ہم تو نکل آئے ہیں گھر سے
کچھ ایسےصحیفوں کا ہؤا جاتا ہے ادراک
دل چیخ اٹھا غم سے، صدا آئی جگر سے
اک بات ستاروں نے مرے کان میں کہہ دی
شب بھر کو جگے، چین بھری نیند کو ترسے
موسم کے ارادوں میں تبدل ہے نمایاں
مانو جو مری بات تو باز آؤ سفر سے
جو انجمِ تاباں کا طلب گار نہیں ہے
محروم ہؤا سمجھو گراںبار شجر سے
آنگن میں لگے پیڑوں سے امید بڑی تھی
افسوس مگر ہم تو ہیں محروم ثمر سے
ہم کچھ بھی نہیں خاکِ کفِ پائے بزرگاں
اِس جا پہ ہیں ہم اُن کی دعاؤں کے اثر سے
مسحور بیاباں میں سرابوں کا سفر تھا
انفاس جمے رہتے فسوں کار کے ڈر سے
پھر تُل کے رشیدؔ آیا ہے کفار کا لشکر
کچھ سیکھ نہیں ان کو مگر جنگِ بدر سے