اے زندگی تجھے یاد ہے
Poet: ندا ندیم By: ندا ندیم , Hjärupاے زندگی تجھے یاد ہے جب توں مانند خواب تھی
رنگ برنگے صفحات سے سجی کوئی مہکتی کتاب تھی
تجھے جینے والے بے داغ تھے اپنے جہاں کے نواب تھے
ان کی چھوٹی سی دنیا میں بڑے بڑے خواب تھے
وہ خواب بھی سراب تھے ہم بڑ ھتے گئے وہ مٹتے گئے
وہ کتاب بنا نصاب تھی ہم پڑھتے گئے حروف مٹتے گئے
ہم خود سے ٹکراتے رہے، اور گرتے رہے پھر سمبھلتے رہے
اپنے ہی لہو کو سیاہی بنا کر وہ خالی کتاب بھرتے گئے
ان رنگین خوابوں کی ہمیں اب کوئی پروا نہیں
ہم بے خوف چلتے رہے سراب خود ہی مٹتے گئے
خود ہی نصاب لکھتے گئے خود ہی کتاب بنتے گئے
صحراؤں میں کالی گھٹا بن کر ہم بے آب برستے گئے
چلنا اٹکنا پھر گر کر سمبھالنا ہم نے اڑنا سیکھ لیا ہے
ملنا بچھڑنا پھر ٹوٹ کر سمٹنا، درد سہنا سیکھ لیا ہے
اس بھول بھلیاں میں بھٹکتے ہم نے ہر راہ دیکھ لیا ہے
اے زندگی اترا مت، ہم نے تجھے جینا سیکھ لیا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






