اک شام پھر دے دو

Poet: UA By: UA, Lahore

میرے ہمدم میرے ساتھی مجھے اک شام پھر دے دو
بہاروں سے نظاروں سے بھری اک شام پھر دے دو

میرے آغاز الفت کو کوئی انجام پھر دے دو
رنگ و نور میں ڈوبی سہانی شام پھر دے دو

کہاں تک میں اندھیروں میں سفر کرتی چلی جاؤں
سحر کے واسطے اک شام کو انجام پھر دے دو

شب ظلمت کہیں گمراہ نہ کردے اس مسافر کو
ماہ تاب تاروں سے بھری اک شام پھر دے دو

کہاں تک میں سمیٹوں راستے کے خاروخس جاناں
مہکتے رنگوں سے سجی شام گلفام پھر دے دو

کئی صدیوں سے پیاسا اک مسافر دشت میں تنہا
نہ رہ جائے کہیں تشنہ اسے اک جام پھر دے دو

تمہاری بے نیازی مار نہ ڈالے کہیں اس کو
نگاہوں کی زباں سمجھو کوئی پیغام پھر دے دو

کہیں گمنام نہ رہ جائے عظمٰی اپنی داستاں
کہ اس بے نام قصے کو مجسم نام پھر دے دو

Rate it:
Views: 630
24 Nov, 2008