اُن کے ہونٹوں پہ ہے ہنسی تنہا
Poet: wasim ahmad moghal By: wasim ahmad moghal, lahoreاُن کے ہونٹوں پہ ہے۔۔۔۔ ہنسی تنہا
میری آنکھوں میں ہے۔۔۔۔نمی تنہا
یوں تو محرومیاں ۔۔۔بہت سی تھیں
یاد آئی تیری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کمی تنہا
دیکھیے کب بنے یہ۔۔۔۔ دل کی لگی
کر رہے ہیں وہ۔۔۔۔۔۔ دل لگی تنہا
ساتھ ہوتے ہیں ۔۔۔۔عشوہ و غمزہ
نہیں ہوتی یہ ۔۔۔۔۔۔دلبری تنہا
عشق میں سب نے ساتھ چھوڑ دیا
رہ گئی دل میں ۔۔۔۔۔بے کلی تنہا
دوست احباب چل دیئے سارے
میں نہیں کرتا ۔۔۔۔مےکشی تنہا
رو رہا ہوں کہ گھر کے ۔آنگن میں
ہنس رہی ہو گی۔۔۔۔۔ چاندنی تنہا
منزلِ عشق ہم سے۔۔۔ دور نہیں
ساتھ دے گر ۔۔۔۔۔دیوانگی تنہا
لوگ کہتے ہیں ہم کو۔۔ ۔دیوانہ
اور ہمیں ہی ہے۔۔۔۔۔ آگہی تنہا
وہی دنیا میں۔۔۔۔۔۔ سربلند ہوا
جس نے پائی ہے۔۔۔ عاجزی تنہا
یاد رکھنا وفا کی راہوں۔۔۔۔ میں
آڑے آتی ہے۔۔۔ خودسری تنہا
ہر اذیّت تیری میں۔۔ سہ لوں گا
چھوڑ دے گر تُو ۔۔۔بے رُخی تنہا
آج اُمید ساتھ۔۔۔۔۔ چھوڑ گئی
کیسے کاٹوں گا ۔۔۔۔۔زندگی تنہا
ایک تُو ہی نہیں جلا۔۔۔ اے دل
شمع بھی رات بھر۔۔۔۔ جلی تنہا
کیسے کہیےگا مدّعا ۔۔۔۔۔۔اُن سے
وہ تو ہوتے نہیں ۔۔۔۔۔کبھی تنہا
ساتھ تھا سلسلہ۔۔۔۔ مصائب کا
کب ملی ہم کو۔۔۔۔۔ مفلسی تنہا
میرے مولا مجھے ۔۔عطا کر دے
اُن کے چہرے کی۔۔ روشنی تنہا
سکوں کی خاطر یہاں پہ آیا ہوں
رہ گئی تھی تری ۔۔۔۔۔۔گلی تنہا
چاند پر ڈورے۔۔۔۔ ڈالنے والو
جلا کے رکھ دے گی ۔چاندنی تنہا
تیرے دل کی بیماریوں۔ کا علاج
ایک ہی ہے یہ ۔۔بے خودی تنہا
رہ گئے مے کدے میں آخر کار
ایک میں اور۔۔۔۔۔ تشنگی تنہا
ساری دنیا کے دکھ اُٹھا کےوسیم
کر رہا ہوں میں۔۔ شاعری تنہا
راہِ نیکی میں تو سچے لوگ بھی ٹوٹ جاتے ہیں
دوست جو ساتھ تھے کبھی نڈر ہمارے اے میاں
وقت کے ساتھ وہ سبھی ہم سے اب چھوٹ جاتے ہیں
ہم چھپائیں کس طرح سے اب محبت کا اثر
دل کے گوشوں سے وہ جذبے خود ہی اب پھوٹ جاتے ہیں
کچھ جو خوابوں کے نگر میں لوگ تھے نکھرے ہوئے
ہو کے بکھرے وہ ہوا کے ساتھ ہی لوٹ جاتے ہیں
جو کیے تھے ہم نے دل کے اس سفر میں وعدے سب
وقت کی قید میں وہ سارے ہم سے اب روٹھ جاتے ہیں
پھول کی خوش بو کی صورت تھی ہماری یہ وفا
یاد کے عالم میں اب وہ سب ہی بس چھوٹ جاتے ہیں
مظہرؔ اب کہتے ہیں یہ سب ہی فسانے پیار کے
کچھ حسیں لمحے بھی دل سے اب تو اتر جاتے ہیں
خواب بکھرے ہیں مرے اس دل کے ہی ویرانے میں
ہم کو تنہا کر دیا احساس کی اس دنیا نے
جیتے ہیں ہم جیسے جلتے ہوں کسی پیمانے میں
ہر قدم ٹھوکر ملی ہے، ہر جگہ دھوکا ملا
پھر بھی تیری یاد آئی ہے ہمیں زمانے میں
اپنے ہی گھر سے ملے ہیں ہم کو اتنے دکھ یہاں
بے وفا نکلے سبھی رشتے اسی خزانے میں
شمعِ امید اب تو آہستہ سے بجھنے لگی ہے
آگ سی اک لگ گئی ہے دل کے اس کاشانے میں
ہر سخن خاموش تھا اور ہر زباں تنہا ملی
غم ہی غم گونجا ہے اب تو بھیگے ہر ترانے میں
دل جسے سمجھا تھا اپنا سب ہی کچھ اے مظہرؔ
اب وہ بھی تو مل نہ سکا ہم کو کسی بہانے میں
نیک سیرت لوگ ہی دنیا میں روشن ہوتے ہیں
جس کی گفتار و عمل میں ہو مہک اخلاق کی
ایسے ہی انسان تو گویا کہ گلشن ہوتے ہیں
نرم لہجہ ہی بناتا ہے دلوں میں اپنی جگہ
میٹھے بول ہی تو ہر اک دل کا مسکن ہوتے ہیں
جن کے دامن میں چھپی ہو عجز و الفت کی ضیا
وہی تو اس دہر میں پاکیزہ دامن ہوتے ہیں
بات کرنے سے ہی کھلتا ہے کسی کا مرتبہ
لفظ ہی تو آدمی کے دل کا درپن ہوتے ہیں
جو جلاتے ہیں وفا کے دیپ ہر اک موڑ پر
وہی تو اس تیرگی میں نورِ ایمن ہوتے ہیں
تلخ باتوں سے تو بس پیدا ہوں دوریاں سدا
اچھے الفاظ ہی تو الفت کا کندن ہوتے ہیں
مظہرؔ اب اپنے سخن سے تم مہکا دو یہ جہاں
اہلِ دانش ہی تو علم و فن کا خرمن ہوتے ہیں
وقت آئے گا تو سورج کو بھی رَستہ دِکھا دیں
اَپنی ہستی کو مٹایا ہے بڑی مُشکل سے
خاک سے اُٹھیں تو دُنیا کو ہی گُلشن بنا دیں
ظُلمتِ شب سے ڈرایا نہ کرو تم ہم کو
ہم وہ جگنو ہیں جو صحرا میں بھی شَمعیں جلَا دیں
اَہلِ دُنیا ہمیں کمزور نہ سمجھیں ہرگز ہم وہ
طُوفاں ہیں جو پل بھر میں ہی بَستی مِٹا دیں
خامشی اپنی علامَت ہے بڑی طاقت کی
لَب ہلیں اپنے تو سوئے ہوئے فتنے جگا دیں
ہم نے سیکھا ہے سَدا صَبر و قناعت کرنا
وَرنہ چاہیں تو سِتاروں سے ہی مَحفل سَجا دیں
راہِ حق میں جو قدم اپنے نِکل پڑتے ہیں
پھر تو ہم کوہ و بیاباں کو بھی رَستہ دِکھا دیں
مظہرؔ اَب اپنی حقیقت کو چھُپائے رَکھنا
وقت آئے گا تو ہم سَب کو تماشا دِکھا دیں






