غیر موجود کوئی تھا تو مرے پاس ابھی
چھوڑے جاتا ہے جو رخسار پہ انفاس ابھی
دل پذیری تری پازیب کی ہے رقص کناں
اور سارنگی مجھے ہجر کی ہے راس ابھی
میری خلعت کو ترا بخشا ہؤا ہے اعزاز
ناچتی رہتی ترے قرب کی ہے باس ابھی
شاہ زادوں نے مرے ہاتھ پہ بیعت کی ہے
سر فرازی کا مجھے ہوتا ہے احساس ابھی
حل طلب کوئی معمّہ ہے محبت کا قدیم
دل زدوں کا چلو بلواتے ہیں اجلاس ابھی
فصل بوئی ہے فسادوں کی، طلب امن کی ہے
جو اگائی ہیں، وہی پاؤ گے اجناس ابھی
خوش کلامی کا یہ آفاق سے اترا ہے صلہ
کھانے لگ جائے گا ہم زاد مرا ماس ابھی
ایک افلاس کا مارا ہے تو دوجے کے لیئے
ڈھیر لگ جائیں اشارے پہ ہی الماس ابھی
حق اگر پایا ہے اسنادِ فضیلت کا رشیدؔ
باعثِ طرۂِ دستار ہے لکھ پاس ابھی