اس دبی دبی ہنسی میں کچھ تو ہے جو بہت ہے
Poet: Aiman Shahid By: Aiman Shahid, KARACHIاس دبی دبی ہنسی میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
ان چمکتی آنکھوں میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید ٹوٹے ہیں خواب بری طرح سے
ان چپ لبوں کی حرکت میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید چاہا ہے کسی کو پوری طرح سے
اس پل پل سے دھڑکتے دل میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
اس مسکراہٹ پر کرتے ہیں لوگ یقین ایسے
اس ہر لمحے کی خاموشی میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید کچھ تو چھپا ہے ان آنسوؤں میں بےحد
ان بوندوں کی شدت میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
شاید دکھا ہے کچھ تو جو پردے میں ہے
ان لمحوں کے درد میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
افسردہ کر کے کہتے ہیں گناہ کہاں
اس ٹپکتے خون میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
لفظوں کی اہمیت کچھ بھی نہ ہو جیسے
ہر لفظ کی آہٹ میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
اب آنسو بھی لگتے ہیں لوگوں کو پانی کے قطرے
ہر تکلیف کے لمحے میں
کچھ تو ہے جو بہت ہے
More Life Poetry
ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے ہر کام کا وقت مقرر ہے ہر کام کو وقت پہ ہونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے
اسلم






