“درحقیقت میں کبھی لڑکا بننا نہیں چاہتی تھی، لیکن جب میری پیدائش ہوئی تو میرے والدین مجھے نہیں چاہتے تھے۔ میں ایک ان چاہی بچی تھی۔ وہ بیٹا چاہتے تھے لیکن میں پیدا ہوگئی، چوتھی بیٹی۔ انہوں نے اپنی مرضی سے مجھے حجام کے پاس لے جا کر بال مشین سے صاف کروا دیے۔ میں صرف نو سال کی تھی۔ میں سکتے میں آگئی۔ میں تقریباً دو ہفتے تک گھر سے باہر نہیں نکلی۔ آہستہ آہستہ میں نے اس تبدیلی کو قبول کر لیا، اور پورا محلہ مجھے علی بھائی کہنے لگا۔ میں واقعی علی بھائی بنتی جا رہی تھی۔ والدین کے ساتھ قربانی کے جانور لینے جاتی، ان کے دانت چیک کرتی۔ میں جانوروں کو ساتھ لے کر پورے محلے میں گھومتی تھی۔ اگر کوئی مجھے نمرہ کہہ دیتا تو میں رونا شروع کر دیتی۔ کچھ وقت بعد ڈاکٹروں نے والدین کو خبردار کیا کہ معاملہ ہاتھ سے نکل رہا ہے کیونکہ میں واقعی اس الٹے کردار کو سنجیدگی سے اپنا چکی تھی۔ میری شکل و صورت بالکل لڑکوں جیسی ہو گئی تھی۔ میں سوٹ اور ٹائی پہنتی تھی اور ہریتھک روشن کی نقل کرتی تھی۔ میری ظاہری حالت کی وجہ سے کوئی لڑکی مجھ سے بات تک نہیں کرتی تھی۔ میرے ساتھ زندگی میں ایسے کئی واقعات ہوئے۔”
نمرہ خان، جو پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی مشہور اور مقبول اداکارہ ہیں، حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں اپنی زندگی کے سب سے کڑے اور تکلیف دہ تجربے پر کھل کر بات کرتی دکھائی دیں۔ انسٹاگرام پر 4.2 ملین فالوورز رکھنے والی یہ اداکارہ ’اے مشتِ خاک‘، ’احرامِ جنون‘، ’اوران‘، ’خوب صورت‘، ’باغی‘ اور ’ام ایمن عائشہ‘ جیسے مقبول ڈراموں کا حصہ رہ چکی ہیں، مگر پہلی بار انہوں نے اپنی ذاتی زندگی کے اس باب کا انکشاف کیا جس نے سننے والوں کو حیران اور افسردہ کر دیا۔
انٹرویو میں نمرہ نے بتایا کہ وہ جب پیدا ہوئیں تو گھر والوں کی خواہش کے برعکس ایک اور بیٹی تھیں، جس کی وجہ سے انہیں قبول نہیں کیا گیا۔ یہی احساسِ محرومی ان کے بچپن کا سب سے بڑا زخم بن گیا۔ انہوں نے بتایا کہ صرف نو برس کی عمر میں گھر والوں نے ان کے بال کاٹ کر انہیں لڑکے جیسی شکل دینے کی کوشش کی، اور یہ واقعہ ان کے لیے کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔ وہ دو ہفتے گھر سے باہر نہ نکل سکیں، لیکن پھر رفتہ رفتہ اسی روپ میں ڈھلتی چلی گئیں۔
محلے والے بھی انہیں ان کے اصل نام سے نہیں، بلکہ ’علی بھائی‘ کہہ کر پکارتے تھے، اور نمرہ خود بھی اسی شناخت کو اپنا بیٹھیں۔ قربانی کے جانور خریدنے جانا، ان کے دانت چیک کرنا، اور جانوروں کے ساتھ محلے میں پھرنا ان کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا۔ اگر کوئی انہیں نمرہ کہہ دیتا تو وہ تڑپ کر رو پڑتیں۔ معاملہ تب سنگین ہو گیا جب ڈاکٹروں نے والدین کو خبردار کیا کہ نمرہ اس تبدیل شدہ شناخت کو حقیقت کا حصہ سمجھنے لگی ہیں۔
نمرہ نے بتایا کہ ان کی شخصیت، انداز اور پہننے اوڑھنے تک میں لڑکوں جیسی جھلک آنے لگی تھی۔ وہ سوٹ ٹائی پہنتی تھیں، فلمی ہیرو ہریتھک روشن کی نقل کرتی تھیں، اور ہم عمر لڑکیاں ان کی ظاہری حالت کی وجہ سے ان سے دور رہتی تھیں۔ یہ سب ان کے بچپن کے وہ خاموش زخم تھے جنہیں وہ برسوں تک اپنے دل میں لیے پھرتی رہیں۔
نمرہ خان کی یہ دلخراش کہانی سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور لوگ نہ صرف ان کے دکھ پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ ان کی ہمت اور کامیابی کو بھی خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔ ایک ایسی بچی جو اپنے ہی گھر میں ناچاہی گئی، آج اپنی صلاحیت، خوبصورتی اور شخصیت کے باعث لاکھوں دلوں پر راج کر رہی ہے۔ نمرہ کی کہانی ان لڑکیوں کے لیے امید کی ایک کرن ہے جو قبولیت اور محبت کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، اور یہ سبق بھی کہ انسان کی اصل پہچان اس کی محنت، ہمت اور حوصلہ ہوتا ہے، نہ کہ وہ حالات جو اسے توڑنے کے لیے تھوپ دیے جاتے ہیں۔