پاکستان کے نامور طبیب، محسنِ تعلیم، اور علم و خدمت کا استعارہ حکیم محمد سعید کی شہادت کو آج 27 برس بیت چکے ہیں۔
17 اکتوبر 1998 کی وہ دل دہلا دینے والی صبح آج بھی قوم کے حافظے میں تازہ ہے، جب کراچی کے علاقے آرام باغ میں دن دہاڑے حکیم محمد سعید پر گولیاں برسائی گئیں اور ملک ایک عظیم محسن سے محروم ہوگیا۔
حکیم محمد سعید صرف ایک معالج یا محقق نہیں تھے، وہ ایک نظریہ، ایک خواب اور ایک مشن کا نام تھے۔ طبِ یونانی کے ماہر، سیکڑوں کتابوں کے مصنف، بچوں کے محبوب رسالے "ہمدرد نونہال" کے ایڈیٹر، اور جامعہ ہمدرد جیسے عظیم تعلیمی ادارے کے بانی — ان کی زندگی کا ہر لمحہ خدمتِ خلق، فروغِ علم اور قوم کی فلاح کے لیے وقف تھا۔
1953 میں انہوں نے ہمدرد فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی، جسے پاکستان کے طب، تعلیم اور تحقیق کے میدان میں ایک علامت کا درجہ حاصل ہوا۔ 1991 میں انہوں نے جامعہ ہمدرد قائم کی، جو آج بھی ان کے خواب کی تعبیر بن کر قوم کے ہزاروں نوجوانوں کو علم کی روشنی سے منور کر رہی ہے۔ ان کی درویشانہ طبیعت اور بے مثال اخلاق نے انہیں عوام کے دلوں میں ایک منفرد مقام دیا۔ 1993 میں وہ گورنر سندھ مقرر ہوئے، لیکن محض چند ماہ بعد یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ میں دوا بانٹنے آیا ہوں، کرسی سنبھالنے نہیں۔
17 اکتوبر 1998 کو، کراچی کی گلیوں میں گونجتی گولیوں نے ایک خاموش مگر عظیم آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا۔ اس قتل کا مقدمہ برسوں عدالتوں میں چلتا رہا، کئی افراد کو گرفتار کیا گیا، جن کا تعلق متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) سے بتایا گیا۔ ایم کیو ایم نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی اور اسے سیاسی سازش قرار دیا۔ بالآخر سندھ ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ نے تمام ملزمان کو باعزت بری کردیا، شواہد کو ناقص، جھوٹا اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے۔ نتیجہ یہ کہ آج تک کوئی قاتل قانون کی گرفت میں نہ آسکا۔
حکیم محمد سعید کا قتل ایک ایسا سانحہ ہے جو صرف ایک فرد کا قتل نہیں بلکہ انصاف، سچائی اور ریاستی عملداری پر ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ 27 سال گزرنے کے باوجود وہی سوال آج بھی عدالت، صحافت اور قوم کے ضمیر پر دستک دے رہا ہے قاتل کون تھا؟ اگر وہی نہیں تھے جنہیں نامزد کیا گیا، تو پھر اصل مجرم کون ہے؟ اور وہ آج تک آزاد کیوں ہے؟
ان کی 27 ویں برسی کے موقع پر ملک بھر میں دعائیہ تقریبات، سیمینارز اور فکری نشستوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جامعہ ہمدرد، ہمدرد لیبارٹریز، اور ہمدرد دواخانہ آج بھی ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کے شاگرد، مداح اور چاہنے والے آج بھی یہ عہد کرتے نظر آتے ہیں کہ حکیم صاحب کے مشن کو مرنے نہیں دیں گے۔
حکیم محمد سعید ہم میں نہیں رہے، لیکن ان کی جلائی ہوئی شمع آج بھی ہزاروں ذہنوں میں علم و خدمت کا چراغ بن کر روشن ہے۔ لیکن جب تک ان کے قاتل سامنے نہیں آتے، انصاف کے ایوانوں میں یہ سوال گونجتا رہے گا، حکیم محمد سعید کو کس نے مارا؟