گندم کی کم قیمت پر خریداری کے خلاف لاہور میں احتجاج، پولیس اور کسان آمنے سامنے

image
پنجاب میں حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر گندم کی عدم یا کم خریداری اور سرکاری طور پر طے امدادی قیمت سے کم پر خریداری کے خلاف کسان احتجاج کر رہے ہیں۔

پیر کو پنجاب بھر سے آئے ہوئے کسان پنجاب اسمبلی کے باہر جمع ہوئے تاہم متعدد مقامات پر پنجاب پولیس نے ناکہ لگا کر کسانوں کو اسمبلی کی طرف جانے نہیں دیا۔

شہر کے تمام داخلی راستوں، شاہدرہ، سگیاں، ٹھوکر نیاز بیگ، شیرا کوٹ سمیت تمام داخلی راستوں پر پولیس تعینات ہیں۔

 جبکہ پنجاب پولیس کی جانب سے اسمبلی کے باہر چیئرنگ کراس پر قیدیوں کی وین اور واٹر کینن بھی پہنچائی گئی تھی۔

 پولیس کی بھاری نفری ہائی کورٹ کے سامنے جی پی او چوک پر بھی تعینات ہے۔

کسانوں نے جب اسمبلی کی طرف پیش قدمی کی تو پولیس اہلکاروں نے اُن پر دھاوا بول دیا۔ کسانوں نے گندم کے خوشے ہاتھوں میں اٹھائے تھے اور ’ہمیں مارو، ہمیں اریسٹ کرو‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

اس سے قبل مرکزی چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین نے کہا تھا کہ کسانوں کے قافلے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے سامنے پہنچیں گے۔ ان کے مطابق گرفتاریوں کی وجہ سے تاخیر ہوئی مگر احتجاج لازمی ہوگا۔

’پنجاب بھر سے کسان بڑی تعداد میں لاہور آ رہے ہیں ہم پُرامن طریقے سے اپنا احتجاج چاہتے ہیں۔‘

چیئرمین کسان اتحاد خالد حسین نے کہا تھا کہ کسانوں کے قافلے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے سامنے پہنچیں گے۔ (فوٹو: سکرین گریب)انہوں نے بتایا کہ کسان اتحاد کے متعدد عہدیداروں کو گھروں سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ عارف والا میں مرکزی نائب صدر صابر نیاز کمبوہ کو گھر سے گرفتار کیا گیا۔

اب تک کسان اتحاد نے دو رہنماؤں سمیت متعدد گرفتاریوں کا دعویٰ کیا ہے تاہم وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے کسانوں کے نمائندے گرفتار نہیں کیے۔

ان کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ایک جماعت گندم کے معاملے کو سیاسی رنگ دے رہی ہے۔ پنجاب حکومت نے کسانوں کے نمائندے کو گرفتار نہیں کیا، نہ ہی صوبہ بھر میں گرفتاریاں ہوئی ہیں‘

بیان کے مطابق عظمیٰ زاہد بخاری نے بتایا کہ پاکستان میں کسانوں کی تین سے چار تنظیمیں ہیں جبکہ پنجاب حکومت کسانوں کے حقیقی نمائندوں سے رابطے میں ہے۔

’کچھ لوگ اپنی سیاست کی آڑ میں کسانوں کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔ پنجاب حکومت کسانوں کے ہر قسم کے مفاد کا تحفظ کر رہی ہے اور کرے گی۔‘

پنجاب پولیس کی جانب سے اسمبلی کے باہر چیئرنگ کراس پر قیدیوں کی وین اور واٹر کینن بھی پہنچائی گئی تھی۔اس وقت لاہور میں پنجاب کے مختلف حصوں سے کسان پہنچ چکے ہیں۔ محمد ریاض کا تعلق ضلع ساہیوال سے ہے اور وہ کسان اتحاد پاکستان کے ضلعی جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ہمارے ساتھ حکومت نے وعدہ خلافی کی ہے۔

’تین ماہ قبل حکومت نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا کہ فی من(چالیس کلو گرام) گندم حکومت 3900 روپے کے حساب سے خریدے گی لیکن اب جب ہمارا غلہ تیار ہوگیا ہے تو حکومت اپنے وعدے سے مکر گئی ہے۔ کاشت کاری کے وقت گندم کے قیمت 5000 سے 5500 روپے فی من تک تھی لیکن اب اِس کی سرکاری قیمت 3900 سو روپے فی من بھی نہیں مل رہی۔‘

’حکومت اب گندم خرید بھی نہیں رہی۔ ایک تو حکومت اب گندم نہیں خرید رہی اور اوپر سے انہوں نے نئی ترکیب بتائی ہے کہ 6 ایکڑ زمین والے کسان سے درخواست لے رہے ہیں اور اس سے بڑی زمین والوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اس طرح ایک ایکڑ پر 6 بوریاں بنتی ہیں جن میں 15 من گندم آتا ہے۔ اس طرح کسان باقی گندم کہاں لے کے جائے؟‘

محمد ریاض کے مطابق پنجاب حکومت نے گندم کا کوٹہ بھی کم کیا ہے جو پچھلے سال 40 لاکھ ٹن مقرر تھا۔

’گذشتہ دو حکومتوں میں گندم کا کوٹہ 40 لاکھ ٹن برقرار رکھا گیا لیکن اس حکومت نے یہ کوٹہ کم کر کے ساڑھے سات لاکھ ٹن کر دیا ہے۔ جب کسان کو پتا چلا کہ حکومت ریٹ بڑھا نہیں رہی تو مارکیٹ میں موجود گندم 2500 سے 3000 تک فروخت ہونے لگی کیونکہ کسان تو مجبور ہے۔ فصل تیار ہوچکی ہے اور ہم نے اگلی فصل کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس فصل کی ادائیگی بھی کرنی ہے۔‘

دوسری جانب لاہور میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو میں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان نے کہا کہ گندم پالیسی کے نتیجے میں بڑی فصل کاشت ہوئی۔

حکومت کا کسانوں سے گندم نہ خریدنے اور بروقت بار دانہ نہ دینے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’کسانوں کو حکومت سے توقعات ہیں، انہیں اکیلا نہ چھوڑا جائے۔ وزارتی کمیٹی بھی کام کر رہی ہے، یقین ہے گندم کی خریداری کا ہدف حکومت بڑھائے گی۔‘

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے کسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کی ہے۔ ترجمان پی ٹی آئی کے بیان کے مطابق ’گندم کی خریداری سے متعلق نااہل اور نالائق حکومت کی ناقص پالیسوں کے باعث کسان اوپن مارکیٹ میں سرکاری نرخ سے کہیں کم پر گندم بیچنے پر مجبور ہے۔ کسان کو امدادی قیمت سے بیس پچیس فیصد کم نرخوں پر گندم کی فروخت کے امکانات سے دیہی معیشت خصوصاً کسان کو اربوں روپے کے نقصان کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔‘

پی ٹی آئی نے مطالبہ کیا کہ حکومت وضاحت پیش کرے کہ بلاضرورت انتہائی مہنگے داموں درآمد کی گئی گندم کے پیچھے کیا حکمت عملی کارفرما تھی اور اس کے کیا مثبت اثرات سامنے آئے؟

حکومت کا کسانوں سے گندم نہ خریدنے اور بروقت بار دانہ نہ دینے کا اقدام لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔

درخواست مقامی وکیل فرحت منظور چانڈیو ایڈووکیٹ نے دائر کی، جس میں چیف سیکرٹری پنجاب سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

محمد ریاض نے بار دانے کی پالیسی سے متعلق بتایا گذشتہ حکومت کے دوران بار دانہ ہمارے گھروں تک پہنچ جاتا تھا۔ اب یہ پالیسی اپنائی گئی ہے کہ 6 ایکڑ زمین والے کو بار دانہ ملے گا اور اس سے زیادہ والے زمینداروں کو بار دانہ بھی نہیں ملے گا۔‘

محمد ریاض کا کہنا ہے کہ اس طرح اگر ایک گاؤں میں دس کسانوں نے درخواست دی ہے تو انہوں نے صرف دو کسانوں کو 6 ایکڑ کے حساب سے 36 بوریاں دیں تو ایسے میں باقی کسان کہاں جائیں گے؟ ہمارے پاس واحد راستہ احتجاج کا رہتا ہے سو ہم احتجاج کر رہے ہیں۔‘

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.