بےکار وضاحتیں

چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا یہ کہنا کہ ہم پر دباؤ ڈالنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔بہت سے سوالات اٹھا رہا ہے۔ممکن ہے انہوں نے گرد وپیش میں ہونے والی چہ مگوئیوں پر اپنے ادارے کے دفاع میں بات کی ہو۔مگر سوال یہ ہے کہ آیا عدلیہ پر دباؤ کا تاثر پیدا ہی کیوں ہورہاہے؟ دوجے کیاچیف جسٹس صاحب کی طرف سے دیا گیا بیان اس تاثر کو دور کرنے کے لیے کافی ہے؟بظاہر یہی لگتاہے محض وضاحتی بیانو ں سے کام نہ چلے گا۔یہ تاثر کسی بڑی سٹریٹجی کے اپنانے کے بعد زائل ہوگا۔عدلیہ کے کچھ فیصلوں اور ریمارکس سے یہ تاثر قائم ہوا۔اب اسے دوربھی کچھ فیصلو ں اور ریمارکس سے ہی کیا جاسکتاہے۔ باتوں اور دعوں سے بات نہ بنے گی۔اگر مناسب راستہ اختیار نہ کیا گیا تو عدلیہ سے متعلق ایک با رپھر ڈوگر کورٹ کے احیا ء کا تاثر بڑھتا چلا جائے گا۔عدلیہ کی مجموعی پرفارمنس سے یہ تاثر ابھررہاہے کہ معاملات سموتھ اندازمیں نہیں چل رہے۔عمران نااہلی کیس کے فیصلے کو بھی ڈسکس کیا جارہاہے۔اس سے قبل پانامہ کیس نے بھی بڑی بحث کو جتم دیاکچھ معاملا ت بڑے پراسرار ہیں۔اس سے قبل اس سے بھی زیادہ مالیت کے مالی معاملات عدالتوں میں آئے۔مگر عدلیہ نے کسی میں بھی نہ تو چھ ماہ جیسی کوئی شرط لگائی نہ کسی سپریم کورٹ کے جج کو کسی ماتحت عدالت پر نگران بنایا۔ عدلیہ کا رویہ فیض آباد ھرنے کے حوالے بھی غیر واضح رہا۔ایک معزز جج حکومت پر اس لیے برہم ہے کہ اس نے آرمی آفیسر زکو کیوں معاملے میں گھسیٹا۔دوسرے معز ز جج نے اس معاملے میں مداخلت پر آرمی چیف کوخراج تحسین پیش کرتے رہے۔جانے کیوں اس بات کا تاثر دیا جارہا ہے کہ عدلیہ میں بیٹھنے والے اپنی رائے میں قانون اورآئین سے زیادہ دلی جزبات کو مقدم رکھ رہے ہیں۔

عمران خاں کو اہل قرار دینے کے فیصلے کو دیکھ کر بھی کئی سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔یہ کیس بالکل پانامہ کیس کی طرح کا نتیجہ دے گیا۔تب بھی فیصلہ دیے گئے ریمارکس سے مطابقت نہیں رکھ پایا۔اب عمران خاں اہلیت کا فیصلہ بھی ریمارکس کے مطابق نہیں نکلا۔۔پانامہ کیس میں معزز ججز کے ریمارکس ایسے تھے جیسے وہ شریف فیملی کے خلاف پیش کیے گئے ثبوتوں سے مطئن نہیں ہورہی۔بنچ کی طرف سے ایک موقع پر یہ کہا گیاکہ تحریک انصاف کے پیش کئے گئے ثبوت ردی کے کاغذات سے زیادہ کچھ نہیں۔ایک دوسرے موقع پر تحریک انصاف کی طرف سے یہ بھی کہاگیا کہ ہمارا کام صرف الزام لگانا ہے۔ثبوت ڈھونڈنا عدالت کا کام ہے۔ایسا لگ رہا تھا جیسے شریف فیملی کے خلاف درخواست باآسانی خارج کردی جائے گی۔مگر ایسا نہیں ہوا۔وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا۔اس کے لیے تحریک انصا ف کے دیے گئے ثبوتوں کے انبار میں سے کسی بھی ثبوت کی بجائے اقامہ جیسے غیر متوقع معاملے کو جواز بنایا گیا۔عمران کی نااہلی کیس میں بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہوا۔اسی کیس کی سماعتوں کے دوران عمران خاں نے اعتراف کیاکہ انہوں نے آف شور کمپنی بنائی۔جس کا مقصد ٹیکس بچانا تھا۔اسی کیس کے دوران بنچ کی طرف سے باربار عمران خاں کی طرف سے منی ٹریل مکمل نہ ہونے کا کہاگیا۔جس دن فیصلہ محفوظ کیا گیا۔اس دن بھی تحریک انصاف کے وکیل نعیم بحاری کا کہنا تھاکہ ان کے موکل انتخابی گوشواروں میں غلطی سے کچھ چیزوں کا اندراج نہ کرسکے۔یہ غلطی ہے۔اس میں کسی بد نیتی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ان سب باتوں کے باوجود عمران خاں کو کسی بھی غلط بیانی اور بد دیانتی سے مبرا قرار دے دیا گیا۔

عدلیہ پر دباؤ کا تاثر اس لمبے عرصے سے کی جانے والی سازش کے سبب ہے جو جاوید ہاشمی دھرنا اول کے دنوں میں سامنے لاچکے ہیں۔جس طرح سے کچھ بڑے فیصلے پچھلے کچھ دنوں میں سامنے آئے۔ان کے بعد ہونے والی چہ مگوئیاں اس بات کا تاثر دے رہی ہیں کہ شاید عدلیہ کی برداشت جواب دے چکی۔سازشیوں کے آگے عدلیہ کی طرف سے ہتھیار ڈال دیے جانے کی باتیں ہورہی ہیں۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدلیہ کو جو نئی شناخت دی تھی۔مقتدر حلقوں کی پریشانی کاسبب تھی۔بالخصوص وہ طبقہ جو بے ایمانی اور ہیرا پھیروں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہواتھا۔افتخار محمد چوہدری نے جمہوری اور غیر جمہوری دھڑوں میں چھپے ا س طبقے کے لوگوں کی نیندیں حرام کردی تھی۔عدم پرسش کا عادی یہ طبقہ چیف جسٹس کی طرف سے طلبیوں کو اپنی توہین سمجھتاتھا۔اسے تو وہ روایتی عدلیہ پسند تھی جو اشاروں پر فیصلے سنائے او ر ان کی پسند اور نا پسند کے مطابق کام کرے۔حالیہ کچھ عدالتی فیصلے اور ریمارکس اس طرح کی سازش کامیاب ہونے کا پتہ دے رہے ہیں۔پنامہ نظر ثانی کیس کے فیصلے میں بنچ نے جو ریمارکس دیے وہ حیران کن تھے۔بجائے گاڈ فادر اور بیس سال یاد رکھے جانے والے الفاظ کی تلافی کی جاتی۔ رہبر اور رہزن جیسے مذید متنازعہ الفاظ فیصلے کا حصہ بن گئے۔ادھر ادھر کی باتیں نہ کر جیسی شاعری بھی ہوئی۔یوں لگا جیسے پانامہ کیس کے بنچ کے الفاظ اور ریمارکس اتفاقی یا جزباتی نہ تھے۔وہ سوچ سمجھ کر دیے گئے۔کہا جارہا ہے کہ ہم پر دباؤ ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا۔مگر جس طرح کے فیصلے اور ریمارکس آرہے ہیں۔یہ اس بات کی دلالت کررہے ہیں۔کہ کچھ نہ کچھ اسباب ضرور ہیں۔جوعدالت کو ایک مخصوص پیرائے کی سمت طے کرلینے پر مجبور کررہے ہیں۔یہ تاثر عدالتی پرفارمنس سے ہی قائم ہوا۔اب یہ عدالتی پرفارمنس سے ہی زائل ہوسکے گا۔خالی باتوں یا بے کار وضاحتوں سے کام نہ بنے گا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 124177 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.