بیسویں صدی ، مسلمانوں کا سیاسی وفکری بحران اور عبیداللہ سندھی کا انقلابی طرز فکر(1)

مولانا عبیداللہ سندھی بیسویں صدی کے وہ واحد مسلمان مفکر اور سیاسی رہنماہیں جو اپنی سیاسی فکر کی اساس اجتماعیت اور انسانیت دوستی پہ رکھتے ہیں اور وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ، مسلمانوں کو مستقبل میں نئی اور جاندار سیاسی حکمت عملی اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہیں، جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ بیسویں صدی میں وہ کون سے حالات تھے جن کے پس منظر میں عبید اللہ سندھی کا فکر پروان چڑھا؟ اور اس وقت کے مسلمان ہمعسر مفکرین کس سوچ و فکر کا پرچار کر رہے تھے اور عبید اللہ سندھی کا نقطہ نظر کیا تھا؟

تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ’’بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں ہی سے اسلامی دنیا سیاسی اور ثقافتی حوالوں سے بحران سے دوچار ہو چکی تھی ،مسلم سلطنتیں تباہ وبرباد ہو رہی تھیں مغربی طاقتوں نے بحر اوقیانوسAtlantic سے بحر الکاہلPacific تک مسلمان ریاستوں کو اپنا مطیع بنا لیا تھا۔اور اسی طرح’’انیسوی صدی افریقہ میں بحر احمر سے Red sea سے بحر اقیانوس Atlantic تک جو مسلم منطقہ (پٹی)پھیلا ہوا تھا وہ سب یورپین طاقتوں نے آپس میں بانٹ لیا تھا۔جب 1905 ء میں جرمنی نے قیصر جرمنی ولیم ثانی Whilhem ii کو ٹینجر Tangier اس غرض سے بھیجا کہ افریقہ کے مال غنیمت میں وہ بھی اپنے حصے کا مطالبہ کرے اس وقت تک کل افریقہ جو صحرائے صحارا Sharaکے شمال میں تھا ،بہ استثنا مصر ،فرانس کے حلقہ اثر اور اقتدار میں آ چکا تھا۔مصر پر برطانیہ نے 1882ء میں قبضہ کر لیا اور مصراور سوڈان پہلے ہی برطانوی استبداد کے زیر نگیں آ چکے تھے۔

دولت عثمانیہ خاتمہ کے قریب پہنچ رہی تھی عیسائی ریاستیں آزاد ہو چکی تھیں اور1911,12ء کی جنگ ہائے بلقان نے ترکان آل عثمان کا یورپ سے اخراج واقعتا مکمل کر دیا تھا اور پہلی جنگ عظیم کے بعد ان کا ایشیائی وطن بھی پرزے پرزے ہو جانے کے خطرے میں مبتلا تھا لیکن اس جدید شگوفہ تقدیر سے مصطفیٰ کمال کے بہادرانہ اقدامات نے اسے بچا لیا۔مغربی ایشیا میں ہلالی جھنڈے تلے زرخیز علاقے جو عرصے
سے عثمان کی ظالمانہ اور لائق حکومت کے نیچے کراہ رہے تھے اور جس کا جنگ کے بعد خاتمہ ہو گیا وہ مغربی سامراج کا شکار ہو گئے۔ایران شاہان قاچار کی مجہول حکومت کے زیر سایہ انقلاب کے لئے تیار تھا۔جو 1907ء میں شروع ہوا اس درمیان میں برطانیہ کے حلقہ اثر میں آ گیا تھا۔

جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمان ممالک بھی یورپین طاقتوں ،برطانیہ ،فرانس اور ہالینڈ کے پنجہ استبداد میں گرفتار تھے مختصر یہ کہ بیسویں صدی کے آغاز میں آزادی کا سورج غروب ہو رہا تھا اور تمام ممالک پر جہاں مسلمان آباد تھے مستقل تاریکی چھائی ہوئی نظر آتی تھی۔

ہندوستان میں بھی مسلمان ایک بڑی تعداد میں آباد تھے ان کے جلد یا بدیر آزادی حاصل کرنے کی توقع تقریباً نہ ہونے کے برابر تھی۔برٹش ایمپائر اپنے اقتدار اور شوکت کے عروج پر تھا اور وہ اس کے لئے ہر گز تیار نہیں تھا کہ کروڑوں باشندگان ہند جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ کوئی نرمی برتی جائے ۔‘‘(1)

ڈاکٹر تاراچند اس دور کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’بیسویں صدی کے آغاز میں مسلم سیاست کا زیادہ تر رحجان روٹی اور کپڑے کے مسائل ،ملازمتوں میں حصے ،گورنمنٹ کی سر پرستی اور ان سے مراعات کے حصول اور اپنے فرقے میں تعلیم پھیلانے کی طرف تھا چوں کہ اپنے اندر اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا ان کے مقاصد کے حاصل کرنے کا وسیلہ بن سکتا تھا اس لئے اس بات کی کوشش کی گئی کہ مسلمانوں میں وحدت اور یک جہتی کا جذبہ پیدا ہو اس چیز کو بے سوچے سمجھے ’’مسلم قومیت ‘‘کا نام بھی دے دیا گیا اس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم فرقہ الگ تھلگ ہو گیا اور دوسرے فرقوں سے مختلف نظر آنے لگا با لخصوص ہندؤوں سے اس لئے اس بات کی تلاش ہوئی کہ اسلام کے خصائص اور دوسرے فرقوں سے اس کے امتیازات کے پہلو کیا ہیں یعنی اسلام کے بنیادی اصول اور عملی خصائص کیا ہیں اور جدید زندگی سے ان کا تعلق کیا ہے اور یہ بات معلوم کرنے کی بھی کوشش کی گئی کہ تاریخ میں اس کا کردار کیا رہا اور مستقبل میں اس کی افادیت کیا ہے؟

ابھی تک ان مسائل پر مدافعت کے نقطہ نظر سے نظر ڈالی جاتی تھی مسلمان رہنماؤں کا رویہ معذرت خواہانہ تھا وہ اسلام کی صداقت کو بھی اس طرح یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ اس کے اصول مغرب کی ترقی پسندی اور آزا دفکری سے مطابقت رکھتے ہیں جہاں کہیں ناکامیاں نظر آتی تھیں،ان سے صرف نظر کر لیتے تھے یا یہ کہتے تھے کہ یہ نتیجہ تھا اسلامی تعلیمات سے انحراف کا اور بدعات اور بد اعمالیوں کا جن میں وہ مبتلا ہو گئے تھے۔‘‘(2)

بیسویں صدی کے مسلم مفکرین میں ایک نام جمال الدین افغانی کا ہے جنہوں نے پین اسلامک ازم کی تحریک شروع کی۔اور ساری دنیا کے مسلمانوں کو متحد ہو کر اسلامی نظام کے قیام کی جدو جہد کو یقینی بنانے کی جدو جہد کی دعوت دیتے تھے۔مسلمان معاشروں کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے ’’جمال الدین افغانی اور ان کے مکتبہ فکر نے مدافعت کے رویے کی بجائے جارحانہ رویہ اختیار کیا ان کے نزدیک اسلام مذہبی اور سماجی سیاسی دونوں حیثیتوں میں ایک مکمل مذہب ہے ان کا کہنا تھا کہ مسلمان معاشرے اور مسلمان حکومتوں کے زوال کا اصل سبب یہ تھا کہ مسلمان حکومتیں کمزور ہو گئیں تھیں اور مسلمان معاشرہ مذہب پر یقین کامل اور اسلامی سیرت سے محروم ہو گیا تھا یہ صورت حال اسلام میں کسی نقص کی وجہ سے نہ تھی۔ان کے خیال میں اس کا علاج یہ تھا کہ تجدید واحیائے اسلام کی ایک زبردست تحریک پیدا کر دی جائے مسلمان اپنی بد اعمالیوں سے باز آ جائیں اپنے اندر ذوق یقین پیدا کریں اور اسلامی حکومتیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں اور اپنی کھوئی ہوئی طاقت دوبارہ حاصل کریں۔‘‘(3)

جمال الدین افغانی کی سوچ یہ تھی کہ مسلمان متحد ہو کر اپنی قوت دوبارہ حاصل کریں ان کے مدنظر صرف مسلمانوں کی فلاح کا پروگرام تھا لہذا وہ جس فکر نظریہ کا پرچار کر رہے تھے اس میں ترقی پسندی تو کسی قدر نظر آتی تھی لیکن مذہبی حوالے سے وہ بھی ایک گروہیت کا شکار تھے ۔یقیناً یہ اس دور کے تقاضے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ایک تحریک پیدا کی جائے لیکن اس کا دائرے کی نوعیت اب بدل چکی تھی۔اب دنیا میں قومیتوں کا دور تھا ہر قوم کا ایک تشخص تھا ،کوئی امریکی ،برطانوی،ترکی،عربی،فرانسیسی ،ہندوستانی،ہونے پر فخر کرتا تھا ہر قوم نے اپنا علاقہ،اپنی ،زمین،اپنا آسمان،اپنا پانی یعنی سمندری حدود متعین کر دی تھیں۔اور یہ سب کچھ اب ان کی شناخت تھی کوئی چاہے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ اپنا تعارف یا شناخت اپنے وطن کے حوالے سے کرواتا ہے۔اب یہ جو بنیادی تبدیلی تھی جو پوری دنیا کی اقوام میں ظہور پذیر ہو چکی تھی نے سیاسی تحریکات اور فکر وفلسفہ پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔اب ضروری تھا کہ اس کا ادراک کیا جاتا اور اسلامی تحریک کو از سر نو منظم کیا جاتا ،لیکن جمال الدین افغانی نے ان عصری تقاضوں پہ دھیان نہ دیا۔اور وہ پین اسلامک ازم کا نعرہ بلند کرتے رہے ۔لیکن ان کی یہ آواز کہیں نہیں سنی گئی ہر قوم نے اپنے ملکی مفادات کو مدنظر رکھا ۔نظریہ قومیت دراصل وسعت نظری کا تقاضہ کرتا ہے یعنی آپ مذہبی دائرے میں اپنے آپ کو بند کرنے کی بجائے ،اپنی قوم کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر ایک قومی سیاسی تبدیلی لائیں ،اور وہ سیاسی تبدیلی اگرچہ دین اسلام کے اصولوں کو غالب کرنے کے لئے ہو لیکن تمام قوم کے افراد اس میں شریک ہوں۔اور اس طرح قومی انقلاب کی منزل سے گذر کر عالمی انقلاب کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے جب نظریاتی اعتبار سے وسعت نظری،رواداری،اور ہمہ گیریت موجود ہو ایک مخصوص دائرے میں مقید ہو کر کبھی بھی اجتماعی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔

اسی طرح بیسویں صدی کی مسلمان مفکرین میں اہم شخصیت ڈاکٹر علامہ اقبال کی ہے ۔آپ کی شاعری سے فکری رحجانات کا اندازہ ہوتا ہے۔اقبال کی فکر بھی اسلامیت کی فکر تھی ،وہ اسلامیت کے دائرے میں بند ہو کر امت مسلمہ کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں ،اجتماعی جدو جہد کی بجائے وہ انفرادیت کا تصور دیتے ہیں ان کا ’’مرد مومن‘‘اسی تصور کا آئینہ دار ہے۔انہوں نے تاریخ اسلام کی خوش کن فضاؤں اور خوش فہمیوں میں اپنے آپ و مصروف رکھا ،عملی طور پر سیاسی تحریکات اور آزادی کی تحریکات میں ان کا کوئی کردار نہ رہا ،اگرچہ ان کی فکر نے مسلمان معاشرے پر اپنے اثرات چھوڑے لیکن ان کی یہ فکر اسلام کو انسانی تحریک کے طور پر پیش کرنے میں ناکام رہا ۔اور دوسرا چونکہ ان کا براہ راست سیاسی جدو جہد میں کوئی کردار نہ تھا لہذا ان کے نظریات کسی سیاسی تحریک کا باعث بننے میں ناکام رہے ہیں مولانا عبید اللہ سندھی کا نظریہ ایک ایسے سیاسی کارکن کا نظریہ تھا جس نے زندگی کے اکثر سال آزادی کی جدو جہد اور سیاسی داؤ پیچ میں گذارے اور اس دوران طرح طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ذیل میں مولانا عبید اللہ سندھی اسی تناظر میں شخصیات کا بھی تجزیہ کرتے ہیں۔اس تجزیہ سے مولانا کی سیاسی فکر اور دیگر مفکرین کی فکر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مولانا عبید اللہ سندھی اقبال کی شاعری اور ان کے جذبے کی قدر کرتے ہیں لیکن وہ انہیں سیاسی قائد نہیں مانتے ۔مولانا بیان کرتے ہیں
’’میں اقبال کی بڑی عزت کرتا ہوں کہ اس نے شاعری کے ذریعہ جس کی تاثیر نثر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف ابھارا ،جمود ،سکون پسندی ،تقدیر پر صابر وشاکر ہونے اور اشخاص پرستی کو مذموم قرار دیا اور ان کے اندر جوش عمل اور جرات کردار پیدا کرنے کی جدو جہد کی میں مانتا ہوں کہ اقبال کی شاعری نے بڑا کام کیا اور نوجوانوں کی ذہنی بیداری میں اس کا بڑا حصہ ہے لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ احبار اور رہبان اب بھی ہمارے ہاں پچ رہے ہیں ،میرے نزدیک اس کا علاج صرف یورپین ازم اور نیابتی حکومت ہے جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اقتدار کے مالک وہ ہیں اور حکومت ان کے ووٹوں سے بنے گی اور ٹوٹے گی اس دن سے مسلمانوں کے ’’احبار‘‘اور ’’رہبان‘‘کی قبر کھدنی شروع ہو جائے گی۔

میں اقبال کی شاعرانہ عظمت اور ان کے اس عظیم دعوت وابلاغ کے کارنامے کا دل سے معترف ہوں لیکن میرے نزدک سیاسی قیادت اور دینی امامت ایک شاعر کے خواہ وہ کتنا بھی بڑا شاعر کیوں نہ ہو،سپرد کر دینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے اقبال کو میں بڑا شاعر مانتا ہوں لیکن انہیں قوم کا قائد وامام تسلیم کرنے کو تیار نہیں اقبال کو قائد وامام ماننے سے ہی جملہ خرابیاں پیدا ہوئیں۔‘(4) ۔۔۔جاری ہے۔۔۔حوالہ جات آخری قسط کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں۔
 

Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 138495 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More