سسکتی بلکتی زبوں حال دیواریں

دیواروں کی زبوں حالی

کسی بھی کاروبار کمپنی یا ادارے کا اپنی پروڈکٹ کو عوام الناس میں متعارف کروانا ایک ضروری عمل ہے لیکن ہمارا معاشرہ بھیڑ چار کا شکار ہے. دنیا کے مختلف ممالک میں گلی محلوں کی دیواروں کی صفائی کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے کیونکہ یہ ملک کے مختلف حصوں کی خوبصورتی کی علامت سمجھی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں الٹی گنگا مئیاں بہتی ہے. گرفٹی یا وال چاکنگ دراصل قدیم مصر میں دیواروں پر یاد دہانی کے لیئے بنائی گئی تصویروں یا خطوط کو کہا جاتا تھا. لیکن پاکستان میں ہم اسے مثبت پہلو کے لیئے تو بہت کم استعمال کرتے ہیں لیکں ہمارا منفی پہلو میں کوئی ثانی نہیں. چاہتے ہم یہ ہیں کہ ہمارا گھر دیواریں برائیٹو اور ماسٹر پینٹ سے مہکتی اور چمکتی دمکتی رہیں لیکن دوسرے کے گھر دیوار پر ہم ایسے ایسے اشتہار لکھوا کر انکو زود کوب کرنے کی کوشس کریں کہ خدا کی پناہ کاریگر کو خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ ایسے لکھنا تاکہ کسی کے لکھنے کے لیئے جگہ باقی نہ بچے. وال چاکنگ حالانکہ سختی سے منع ہے لیکن اس کے باوجود ہر مصروف شاہراہ پر اور ہر گلی محلے میں موجود عمارات کی بیرونی دیواروں پر آپ کو عالم بابا بنگالی اور انکے کارنامہ ہائے مختلف الفاظ میں لکھیں ہوئے ملیں گے. اور کئی جگہوں پر ایک اشتہار کے اوپر اور اشتہار لکھوا کر کچھ اس طرح کے اشتہار بنا دیئے جاتے ہیں کہ پڑھنے والا کا ہنسے بغیر وہاں سے گزر ہی مشکل ہے. مثال کے طور پر " شادی سے لے کر محبوب کو قدموں میں لانے تک اور حصول رزق سے لے کر نرینہ اولاد کے حصول تک کے مسائل کا حل پیروں فقیروں اور ان عالم بابوں کے پاس موجود ہے" . مگر کیا کوئی عالم بابا بنگالی ایسا بھی ہے جو جنت میں جانے کے لئیے کوئی تعویز یا آخرت سنوارنے کے لیئے کوئی دھونی شونی دیتا ہو. ہر دیوار کا حلیہ مزحقہ خیز تک نا گزیر حد تک بگڑا ہوا ہوتا ہے. تعلیم ، حکومت اپوزیشن صحت اور تعویز گنڈہ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور ایک ہی آواز میں نعرہ بازی کرتے دکھائی دیتے ہیں. دیکھا جائے تو آجکل ہر گلی محلے کی دیواریں ایک کھلی کتاب کا منظر پیش کرتی ہیں جو منفی باتوں سے بھری پڑی ہے. اگر ہم تہیہ کر لیں کہ اس کام کو ختم کرنا ہے تو بہتری لائی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیئے پہلے ہمیں دوزخی پالیسی ختم کرنا ہوگی ، اپنی دیواروں کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خوشیوں کا احساس کرتے ہوئے انکی دیواروں کو بھی صاف رکھنے کی ایک ننھی منی سی سعی کر سکتے ہیں. ایک ریسرچ کے مطابق %60 لوگ یہ سوچتے ہیں کہ وال چاکنگ کو اچھے مقاصد کے لیئے استعمال کیا جا سکتا ہے عوام الناس میں آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے ، لیکن بقیہ %40 لوگ بالکل اسکے برعکس سوچتے ہیں. پاکستان میں وال چاکنگ کا غلط استعمال اس لیئے بھی زیادہ ہے کیونکہ عوام کو کوئی خاص پلیٹ فارم ننہیں ملتا جہاں وہ اپنے خیالات اپنے احساسات کو بیان کر سکیں اس لیئے وہ اپنی frustration غلط انداز میں دیواروں کی نزر کر دیتے ہیں. کچھ لوگوں کے لیئے گرفٹی واقعی ذریعہ معاش ہے لیکن کچھ لوگوں کے لیئے دوسروں کو تنگ کرنے کا طریقہ ہے. اخراجات سے بچنے لے لیئے اشتہارات کو دیواروں کی نزر کر دیا جاتا ہے ، حکومت خود کیا اسکا سد باب کرے گی جب انکی اپنی سیاسی جماعتیں خود کی سیاست چمکانے اور اپنی سیاسی پارٹی کو مقبول عام بنانے کے لیئے دیواروں کو خود ان مقاصد کے لیئے استعمال کرتی ہیں. شہروں کی خوبصورتی کو گھنا دیا جاتا ہے قسم قسم کے فضول اشتہاروت کو دیواروں پر لکھ کر لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا. گلی محلے کی سطح پر موجود کمیٹیاں اور اہم شخصیات جو اثر و رسوخ رکھتی ہیں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں. سٹی گورنمنٹ اور سیاسی حلقے اس چیز کو ختم کرنے میں کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں. بالخصوص ہم بطور ذمہ دار شہری اس عادت سے چھٹکارے کے لیئے اپنی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں. تبدیلی خود بخود کبھی ظہور پزیر نہیں ہوتی ، اس کے پیچھے بہت سارے سالوں کی محنت اور عوام الناس کا بھر پور تعاون ہوتا ہے. تبھی معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے. ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے صرف باتیں ہی ہوسکتی ہیں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آتی. آئیے مل کر عہد کرتے ہیں کہ نہ برا دیکھنا ہے ، نہ برا سوچنا ہے اور نہ ہی برا بولنا ہے ملک و قوم کی ترقی کا راز بھی اسی میں پنہاں ہے.

Samreen Nasarullah
About the Author: Samreen Nasarullah Read More Articles by Samreen Nasarullah: 18 Articles with 33601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.