“ چیلنجر ڈیپ “ سمند ر کی مہم ۔ (1960) اور (2012) میں

( 1960ء میں والش،پیکارڈ اور2012ء میں کیمرون کا سفر)۔۔۔۔بحرا لکاہل میں دُنیا کی سب سے زیادہ گہرائی۔۔۔۔ خشکی میں سب سے زیادہ اُونچائی "ماؤنٹ ایورسٹ" کی 29,028فٹ ہے۔۔۔۔سمندر ی گہرائی خشکی کی بلندی سے زیادہ ہے۔۔۔۔ابیسل زون(پاتال یا کھائی۔ہندو دیو مالا کے مطابق زمین کے 7طبقوں میں سے نیچے کا طبق ہے۔جہاں ناگ رہتے ہیں) میں داخل ہوگئے۔۔۔۔ وہ ساڑھے4گھنٹے میں چیلنجر ڈیپ کی سطح پر پہنچے۔35,814فٹ کی گہرائی میں 20منٹ ٹھرے رہے اور ساڑھے 3 گھنٹے میں واپس۔۔۔۔جیمز کیمرون جہاں فلمی دُنیا کے ایک نامی گرامی ڈائریکٹر و پروڈیوسر ہیں وہاں سمندری گہرائیوں کے مہم جُو بھی ہیں۔اس ہی لیئے وہ بھی 52سال بعد 26ِ مارچ 2012ء کو ماریانا ٹرنچ سے چیلنجر ڈیپ کے سفر پرگئےجہاں فلمی دُنیا کے ایک نامی گرامی ڈائریکٹر و پروڈیوسر ہیں وہاں سمندری گہرائیوں کے مہم جُو بھی ہیں۔اس ہی لیئے وہ بھی 52سال بعد 26ِ مارچ 2012ء کو ماریانا ٹرنچ سے چیلنجر ڈیپ کے سفر پرگئے۔۔۔۔

جیمز کیمرون ۔۔۔ والش،پیکارڈ

چیلنجر ڈیب مہم (1960) :
23 ِ جنوری1960ء کی وہ ایک تاریخی صبح تھی جب 08:23پر ہزاروں لیٹر پٹرول بھرنے کے بعد ایک بہت بڑی آبدوز ٹری ئسٹ میں سوار ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ نے بحرالکاہل میں ماریانا ٹرنچ سے پانیوں کی گہرائی کے سفر کا آغاز کر دیا۔ چند سو فٹ کے بعد اُن دونوں کو سورج کی روشنی مدھم ہوتی نظر آنے لگ پڑی۔گرے سائے کالے ہونے لگے۔ پانی کے دباؤ کو چیرتی ہوئی عمق پیما آبدوز نے ایک شور کے ساتھ چیلنجر ڈیپ کے سفر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔آبدوز کے جس کیبن میں وہ دونوں بیٹھے تھے اُس کا سائز ایک بڑی گھریلو فریج کے برابر تھا ۔جسکا درجہ حرارت بھی اُس کے برابر۔ لہذا وہ یہ جانتے تھے کہ اگلے 9گھنٹے ا اِس میں گزرنے ہیں۔

بحرا لکاہل میں دُنیا کی سب سے زیادہ گہرائی:
انسان ترقی کے منازل تہہ کرتا ہوا چاند پر قدم رکھ آیا ۔پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ کر خشکی کی اُونچائی کی پیمائش کر ڈالی اور سمندری مہم کے شوقین افراد نے سمندروں کی گہرائیاں چھان ماریں۔76تا1872ء کی برطانوی" ایچ ایم ایس چیلنجر ایکسپیڈیشن "اس میں سب سے اہم رہی جس نے مختلف سمندروں کی گہرائیوں کی معلومات حاصل کیں۔یہ سلسلہ جاری رہا اور پھر 1951ء میں اس ہی نام سے رائل نیوی کی ایک مہم نے بحرا لکاہل میں فلپائن کے قریب جزیرہِ گوام سے کم وبیش320کلومیٹر جنوب میں "ماریانا ٹنچ" کا ایک بھرپور سروے کرنے کے بعد واضح کر دیا کہ یہاں سمندری گہرائی 35,760فٹ کے ساتھ سب سے زیادہ ہے۔ پھر اُس گہرائی کا نام اُنھوں نے چیلنجر مہم سے ہی منسلک کرتے ہوئے" چیلنجر ڈیپ" رکھ دیا۔ 1957ء میں "ویتیازنامی سوویت مہم" نے مزید تحقیق کر کے چیلنجر ڈیپ کی گہرائی 36,201فٹ ظاہر کی۔جبکہ خشکی میں سب سے زیادہ اُونچائی "ماؤنٹ ایورسٹ" کی 29,028فٹ ہے۔ اسطرح صاف ظاہر ہے کہ سمندر ی گہرائی خشکی کی بلندی سے زیادہ ہے۔

آج تک12 افراد نے چاند پر قدم رکھا ہے ، ہزاروں نے اُنچائی کا پہاڑ ماؤنٹ ایورسٹ سر کیا لیکن گزشتہ 54سالوں میں صرف 3افراد ایسے ہیں جنہوں نے بحر(سمندر) کے فرش کی گہرائی تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔اُن میں سے والش اور پیکارڈ نامی اشخاص نے یہ حیرت انگیز کامیابی 23ِ جنوری 1960ء میں حاصل کی اور ٹائی ٹینک فلم کے ڈائریکٹر جیمز کیمرون نے 52سال بعد 26ِ مارچ 2012ء میں ۔

ڈان والش اور جیکوئس پیکارڈ:
بحرِ جغرافیہ کے ماہر ڈان والش 2نومبر 1931ء کوامریکہ میں پیدا ہوئے۔انجینئر نگ ی ڈگری یو۔ایس نیول اکیڈمی سے حاصل کی اور سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی امریکہ سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ۔بعدازاں سمندر کی معلومات میں علم حاصل کرنے کی لگن ہوئی تو اُنھوں نے ٹیکساس اے اینڈایم یونیورسٹی امریکہ سے ہی فیزیکل اوشن گرافی میں پہلے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اور پھر پی ایچ ڈی بھی کر لی۔1954ء میں اُنھیں بحیثیت افسر یو ۔ایس نیوی میں کمیشن ملاتو پھر اگلے 15 سال بیشتر وقت اُنھوں نے آبدوزوں میں ذمہداریاں نبھاتے ہو ئے گزارہ۔

جیکوئس پیکارڈ 28جولائی 1922ء کو بیلجیئم کے دارلخلافہ برسلز میں پیدا ہوئے۔اُنکے والد آگسٹ پیکارڈ کا تعلق سوئزرلینڈسے تھا۔ وہ انجینئر اور ایک مہم جو تھے۔1931-32ء میں وہ 2 بار بیلون میں سب سے زیادہ اُونچائی تک اُڑنے کا ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔ لہذا جب اُنکے بیٹے جیکوئس پیکارڈنے سمندر کی گہرائی میں جانے کا ریکارڈ قائم کیا تو اُونچائی و گہرائی کے دونوں ریکارڈ پیکارڈ خاندان کی وجہ شہرت بن گئے۔ جیکوئس پیکارڈ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تو یونیورسٹی آف جنیوا میں معاشیات کا مضمون پڑھانے سے کیا ۔لیکن اُنکے والد چونکہ سمندری سواریاں بنانے کے شوقین تھے ۔خاص طور پر سمندر کی گہرائی میں جانے والی۔ لہذا جیکوئس پیکارڈ نے بھی اُنکا ساتھ دینا شروع کردیا ۔بلکہ اس کیلئے اُنھوں نے اپنے مضمون معاشیات کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔

عُمق پیما آبدوز ( باتھ سکیف) ٹری ئسٹ:
اُن دونوں باپ بیٹے کی اُس محنت کا نتیجہ تھی جس کے بنانے کا مقصد انسان کا سمندر کی گہرائی کی حد تک جا کر آبی معلومات کاحاصل کرنا تھا۔یہ ٹری ئسٹ سو یز سائنس دان آ گسٹ پیکارڈ کی تعدیل ڈیزائن کردہ تھی جو اٹلی میں بنائی گئی اور اٹلی کے شہر ٹری ئسٹ کے نام پر ہی اس آبدوز کا نام رکھ دیا گیا۔یہ شہر بندرگاہ اور جہاز سازی کیلئے مشہور ہے ۔ یہ ایک بڑی آبدوز تھی جس میں2افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ 26ِاگست 1953ء کو وہ آبدوز بحیرہِ روم میں ڈال دی گئی۔جس کو فرنچ نیوی نے کئی سال استعمال کرنے کے بعد 1958ء کو250,000/=ڈالر میں امریکن نیوی کو سیل کردی۔جس کے بعد آبدوزکو ریاست کیلوفورنیا کے شہر" سان ڈیاگو" میں لایا گیا تاکہ اُس کو گہرے پانیوں میں بھیجا جاسکے۔ خاص طور پر چیلنجر ڈیپ میں۔

سمندی گہرائی و میدان:
کے بارے میں یہ معلومات اہم ہیں کہ سمندر ساحل کے فوراًبعد گہرا نہیں ہو جاتا ہے۔بلکہ بتدریج گہرائی بڑھتی ہے۔600فٹ گہرائی کو" بری زیرِ آب" کہتے ہیں ۔یہاں سے سمندر ی تہہ ایک دم ڈھلون ہو جاتی ہے۔جسے "بری ڈھلون" کہتے ہیں۔اسکی گہرائی اور وسیع تہہ پھیلی ہوئی ہوتی ہے۔جس کو "عمیق فرشِ بحر" کہتے ہیں۔لیکن یہ گہرائی ہر جگہ یکساں نہیں ہوتی ہے۔گہرے سمندر کا پانی نیلگوں سبزی مائل اور ذائقہ میں نمکین ہو تا ہے۔وہاں انواع اقسام ے جانور ،پودے ،معدنیات اور کیمیائی عنصر پائے جاتے ہیں۔

انسانی آنکھ کی خواہش :
انسانی آنکھ کی خواہش تھی کہ وہ دیکھ سکے کہ واقعی سمندری گہرائی اتنی ہی ہے جتنی ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسرا اس گہرائی میں پہنچ کر سمندر کی تہہ کا کیا نظارہ ہو گا۔امریکہ کا "پروجیکٹ نیکٹن" اس ہی خواہش کو پورا کرنے کی پیش رفت تھی جس کیلئے 28سالہ لیفٹیننٹ ڈان والش کو منتخب کیا گیا۔ڈان والش نے جب ٹری ئسٹ کوسان ڈیاگو شہر میں دیکھا تھا تو وہ مختلف حصوں میں اسطرح پڑی ہوئی تھی جیسے کسی بوئلر فیکٹری میں دھماکہ ہونے کے بعد اشیاء بے ترتیبی سے پھیلی ہوئی ہوں۔لیکن پھرجب اُسکو منصوبے کے مطابق مزید حفاظتی اقدامات میں اضافے کے مطابق تیار کر لیا گیا تو37سالہ جیکوئس پیکارڈ کو بھی معاون افسر کے طور پر مہم کیلئے منتخب کر لیاگیا کیونکہ وہ ٹری ئسٹ کے بارے میں جانتے تھے۔ واش نے پیکارڈ سے پہلی ملاقات میں کہا کہ وہ جہاں راں (میرینر)ہے تو جواب میں پیکارڈ نے کہا کہ وہ ملاح ہے اور بعدازاں سفر کی تربیت کا آغاز ہو گیا۔

چیلنجر ڈیب کی سطح پر:
1000 فٹ،2000فٹ۔پھر 2400فٹ پر والش اور پیکارڈ نے جس چھوٹے سے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے کی روشنی ہلکی کردی تاکہ باہر کے نظارے کو واضح دیکھنے کی کوشش کی جاسکے۔13,000فٹ پر وہ ابیسل زون(پاتال یا کھائی۔ہندو دیو مالا کے مطابق زمین کے 7طبقوں میں سے نیچے کا طبق ہے۔جہاں ناگ رہتے ہیں) میں داخل ہوگئے جہاں اتنا گہرا اندھیرا تھا کہ ایسے محسوس ہوا کہ وقت تھم گیا ہے۔31,000 فٹ نیچے پہنچے توٹری ئسٹ کی آواز تہہ سے ٹکرا کر گونج پیدا کرنے لگی۔32,400فٹ پر آبدوز کے 7انچ موٹے و مضبوط شیشے پرایک زور دار آواز کے ساتھ دراڑ پر ی تو اُس دھمکہ نے سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔جس سے ایک خوفناک صورتِ حال پیدا ہوتی محسوس ہوئی ۔لیکن اگلے چند منٹوں میں معلوم ہو گیا کہ سب ٹھیک ہے ۔لہذا سفر جاری رکھا جائے منزل قریب تھی۔حوصلہ کیا اور ٹری ئسٹ کو مزید آگے بڑھایا تو تاریک ہیڈل زون (انتہائی گہری کھائی ) میں داخل ہو گئے۔اس کے بعد آخر کار 35,800فٹ پر ڈان والش نے زمینی سطح پر رابطہ کر کے اطلاع دی کہ یہ ٹری ئسٹ ہے...ہم چیلنجر ڈیپ کی تہہ پر ہیں...آور۔یعنی یہ فاصلہ زمین سے کم وبیش 7میل سمندری گہرائی میں جانے کا تھا جس کو بلیک ہول سے گزرنا بھی کہا جاتا ہے اور اُن سے پہلے آج تک اتنی گہرائی میں کوئی نہیں گیا تھا ۔

ٹری ایسٹ کی انتہائی تیز روشنی میں سطح کا پانی خوبصورت اور چمکدارنظر آرہا تھا ۔ ایسا جیسے ایک دودھ کا پیالہ۔ پیکارڈ نے ایک فلیٹ فش(چپٹی مچھلی) کو دیکھا ۔ اُنھوں نے عمق پیماآبدوز کو محتاط انداز میں چیلنجرڈیپ کے فرش پر ٹھرایا۔پھر دونوں نے اپنی اس کامیابی پر ہاتھ ملایا اورایک دوسرے کی تصویریں کھینچیں ۔ اس ہی دوران تہہ کی تلچھٹ کے بادل بھی بننا شروع ہو چکے تھے جو کم ہو نے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے تھے جسکی وجہ باہر کی دُنیا دیکھنے میں مشکل پیش آررہی تھی۔

واپسی کا سفر اور شہرت:
والش اور پیکارڈ نے ان حالات میں فیصلہ کیا کہ رات ہونے سے پہلے واپس سمندر کی اوپر کی سطح پر پہنچا جائے۔ وہ ساڑھے4گھنٹے میں چیلنجر ڈیپ کی سطح پر پہنچے۔35,814فٹ کی گہرائی میں 20منٹ ٹھرے رہے اور ساڑھے 3 گھنٹے میں واپس اپنے مقام پر پہنچ گئے۔دونوں کو سخت سردی و تھکان محسوس ہو رہی تھی لیکن یہ بھی سوچ رہے تھے کہ زندگی کے سب سے اہم لمحے گزر چکے ہیں ۔ کامیابی اور شہرت اُنکے قدم چُوم چکی ہے۔ بعدازاں اس کارنامے پرامریکن صد"ر آئزن ہاور" نے والش اور پیکارڈ کو خصوصی طور پر وائٹ ہاؤس مدعو کر کے اُن کو مبارک باد دی۔
جیک پیکارڈ نے اپنے اس سفر کی سچی داستان مصنف رابرٹ ڈیٹز کے ساتھ مل کر" سیون مائلز ڈؤن :دی سٹوری آف باتھ سکیف ٹری ئسٹ" میں بہترین الفاظ میں بیان کر کے انسانی مہم جوئی کی تاریخ کے باب میں ایک بہترین اضافہ کیا ہے۔

جیمز کیمرون:
جیمز کیمرون16ِاگست 1954ء کو کینیڈا کے صوبے اونٹاریو میں پیدا ہوئے۔آباؤ اجداد 1825میں سکاٹ لینڈ کے چھوٹے سے گاؤں سے نقل مکانی کر کے کینیڈاآگئے تھے ۔کیمرون ایک سکاٹش قبیلہ ہے۔جیمز کے والد ایک انجینئر تھے ۔جنہوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم کا آغاز نیاگرہ فال کے ایک سکول سے کیا۔1971ء میں اُنکا خاندان کیلوفورنیا آگیا۔اُس وقت اُن کی عمر 17سال تھی۔لہذاوہاں کے فلرٹن کالج میں داخلہ لیکر فزکس کے مضمون میں تعلیم حاصل کرناشروع کر دی۔لیکن دو سال بعد تعلیمی میدان میں کچھ خاص کارکردگی نہ دکھا سکے لیکن گریجوایشن کرنے میں کامیاب ہوگئے۔عملی زندگی کا آغاز ٹرک ڈرئیوار کی حیثیت سے کیا ۔لیکن لگن آگے بڑھنے کی تھی۔1977ء میں سٹار وار فلم سے متاثر ہوئے اور ٹرک ڈرائیوری چھوڑ کر فلمی دُنیا میں قدم رکھ دیا۔ آغاز میں تو چھوٹے موٹے فلم سے متعلق کام حاصل کر کے اپنی جگہ بنالی اور پھر خصوصی اثرات کے کام میں مہارت حاصل کر لی۔چند فلمیں اُنکی پہچان تو بنیں لیکن 1984ء میں بحیثیت ڈائریکٹر فلم ٹرمینیٹر اُنکی کامیابی کی سیڑھی بن گئی۔ کامیابیوں کاسلسلہ جاری رہا اور پھر 1997ء میں اُنکی فلم ٹائی ٹینک نے 3اکیڈمی ایوارڈ جیت کر اُنھیں شہرت کی بلندیوں پہنچا دیا۔ 2009ء میں اَووٹار بھی اُنکی وہ کامیاب فلم ہے جسکو بھی 3اکیڈمی ایوارڈ ملے ہیں۔

چیلنجر ڈیپ مہم(2012)
جیمز کیمرون جہاں فلمی دُنیا کے ایک نامی گرامی ڈائریکٹر و پروڈیوسر ہیں وہاں سمندری گہرائیوں کے مہم جُو بھی ہیں۔اس ہی لیئے وہ بھی 52سال بعد 26ِ مارچ 2012ء کو ماریانا ٹرنچ سے چیلنجر ڈیپ کے سفر پرگئے۔ 7برسوں میں اپنی ٹیم کی مدد سے ذاتی اخراجات کے ساتھ ایک ہلکے سبز رنگ کی آبدوز تیار کی جس میں ہر جدید قسم کے ضروری و حفاظتی آلات بمعہ جدید کیمروں کے تنصیب کیئے گئے۔ پائلٹ چیمبر اتنا چھوٹا تھا کہ بامشکل وہ بیٹھ سکیں۔ اُس آبدوز کا نام ڈیپ سی چیلنجر رکھا گیا اور اُنھوں نے صبح کے وقت05:15پر سفر کا آغاز کر دیا۔سفر کا تجربہ تو والش و پیکارڈ کے بیان کردہ تجربے کے مطابق ہی تھا لیکن اُنکی سوچ اور مشاہدے نئے دور کے مطابق سامنے آئے۔

80سے زائد بار سمندری گہرائیوں میں جانے کا تجربہ رکھنے والے جیمز کیمرون ڈیپ سی چیلنجر کے 43انچ ڈایا کہ پائلٹ چیمبر میں بیٹھ کر35منٹ میں "ٹائی ٹینک "کی گہرائی تک پہنچ گئے ۔ 15,617 فٹ پر پہنچے تو اُنکی سوچ ماضی کے جنگی جہاز"بسمار ک" پر گئی جو اُس وقت جرمنی کا سب سے بڑا اور یورپی ممالک میں دوسرے نمبر پر بڑا جہاز تھا ۔27 اورمئی 1941ء کو شمالی بحراوقیانوس میں ڈوب گیا تھا۔ باہر انتہائی اندھیرا تھا اور اُنکو محسوس ہو رہا تھاکہ جیسے وہ برفانی طوفان میں گاڑی چلا رہے ہیں۔ بہرحال سفر جاری رہا اور 2گھنٹے 36منٹ بعد جیمز کیمرون چیلنجر ڈیپ کی سطح پر تھے جہاں اُنھیں اُوپر سے اطلاع آئی ڈیپ سی چیلنجر: یہی سمندر کی تہہ ہے۔جیمز کیمرون کی خوشی کی انتہاء نہ رہی کہ اتنی گہرائی میں بھی آواز آ رہی تھی۔اُنھوں نے جواب ہاں میں دیا اور کہا کہ گہرائی 35,756فٹ ہے۔سب بہتر ہے۔ اُنکے مطابق انڈے کے چھلکے کی طرح ہموار سطح کا نظارہ بہت خوبصورت تھا ۔آبدوز گہرائی میں سطح کو چُھو چکی تھی اور آگے پیچھے بھی ہو رہی تھی۔ اُنکی خواہش تھی کہ سائنسدانوں کیلئے کچھ سمندری ذرات حاصل کیئے جاسکیں۔اُنکو وہاں کوئی جاندار نظر نہیں آیا۔

اکیلا فرد ( ایک منفرد ریکارڈ) :
ایک تو انسانی آنکھ نے اتنی گہرائی کا نظارہ دوسری دفعہ کیا تھا۔دوسرا اکیلے فرد کا اتنی گہرائی میں ایک حیرت انگیز سفر دُنیا عالم کیلئے نیا ریکارڈ تھا۔ اُن سے پہلے والش اور پیکارڈ اکٹھے گئے تھے اور وہ مقام 23میل مغرب کی طرف واقع تھا۔بہرحال 2گھنٹے34منٹ چیلنجر ڈیپ کی سطح پر رہنے کے بعد جب آبدوز کے ہائی ڈارولیک فا لُڈ خارج ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تو اگلے 90منٹ میں وہ سمندرکی اُوپر کی سطح پر واپس آچکے تھے۔

تاریخی واقعات اور اُن سے متعلقہ ریکارڈ بنانا انسان کی جستجوکا اہم حصہ ہے لیکن اس مقام تک جانے کیلئے ابھی تک وہ حوصلہ نظر نہیں آرہا ہے جو اِن 3شخصیات نے دکھایا ہے۔اُن میں بھی آدھی صدی کا وقفہ ہے۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 315801 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More