اتنی سی بات کہنے میں بہت دیر کردی صدر صاحب آپ نے

متاثرین کی توقعات پر پورا نہ اُترے تو....؟پی پی پی کی قیادت بھول جائے کہ عوام ایسے یا کسی کو پھر ووٹ دیں گے.........

ایک طرف جہاں ملک کا ایک بڑاحصہ سیلاب کی تباہ کاریوں کے باعث مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہے تو وہیں پاکستان پیپلز پارٹی کے اِس تیسرے دورِ حکومت میں ملک کی تاریخ میں آنے والے اِس انتہائی بدترین سیلاب نے پی پی پی کے سابقہ تمام ادوارِ حکومت کے ملک اور قوم کے لئے کئے گئے اچھے کارناموں پر بھی پانی پھیر کر اِس پر ایک سیاہ دھبہ لگا دیا ہے جس کی وجہ سے موجودہ حکومت ملک کے اندار اور باہر شدید تنقیدوں کے زد میں ہے اور کوئی اِس پر اعتماد اور اعتبار کرنے کو بھی تیار نہیں ہے جس کا جواب دینے اور خود پر لگنے والے سیاہ دھبے کو صاف کرنے کی ذمہ داری اَب پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اور اِن دنوں ملک پر برسرِ اقتدار رہنے کے باعث اِس کے حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں آنے والے اِس تباہ کن سیلاب کی تباہ کاریوں کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے پچھلے دو سالوں کی ناقص کارکردگی کا ازالہ کرتے ہوئے عوام الناس سمیت عالمی سطح پر اپنا کھویا ہوا وقار کس طرح بحال کرتے ہیں۔اور اپنی سابقہ روایات اور کارکردگی پر قائم رہتے ہوئے اپنی ساکھ کو عوام میں کس طرح برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ شائد اِس ہی فکر اور سوچ کے باعث گزشتہ جمعہ کو صدارتی کیمپ آفس بلاول ہاؤس میں صدرِ مملکت عزت مآب جناب آصف علی زرداری نے ملک میں سیلاب کے بعد ہونے والی تباہ کاری اور اپنے دورِ حکومت کی دو سالہ کارکردگی پر اخبارات کے مدیران اور الیکٹرانک میڈیا کے اینکر پرسنز سے خصوصی ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے اپنے مخصوص لب ولہجے میں کہا کہ پاکستان کو اِس وقت بڑی قدرتی آفت کا سامنا ہے سیلاب متاثرین کی فوری بحالی حکومت کے لئے بڑا چیلنچ ہے بیشک صدر محترم! متاثرین سیلاب کی بحالی نہ صرف حکومت بلکہ وطنِ عزیز کے ایک ایک فرد کے لئے بھی ایک بڑا چیلنچ ہے جس کے لئے ہر محب وطن پاکستانی کو اپنی اپنی زمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنی ہوگی اور اگر اَب بھی ہماری قوم نے اپنے اتحاد و یگانگت اور ملی جذبے کا ثبوت نہ دیا تو پھر کوئی شک نہیں کہ یہی پریشان حال لوگ جن کی تعداد ایک اندازے کے مطابق کم و بیش دو کروڑ ہے وہ اپنی زبو حالی کے باعث ملک میں کسی انقلاب اور دائمی تبدیلی کا علم اٹھائے نکل کھڑے ہوں گے اور پھر وہی کچھ ہوگا جس کی جانب ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ڈنکے کی چوٹ پر اِن دنوں اپنے خطابات میں برملا اظہارِ خیال کررہے ہیں اور ایسے ہی کسی انقلاب .... ؟؟؟جیسے خونی انقلاب کی جانب پچھلے دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی اشارہ کرچکے ہیں اگر ایسا کوئی انقلاب ملک میں آگیا تو پھر سوچیں کیا ہوگا.....؟؟ا ور اِس کے ساتھ ہی صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے اِس موقع پر یہ بھی کہا کہ اگر حکومت اِس موقع پر عوامی توقعات پر پورا نہیں اُتری تو اِس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ صدر مملکت جناب آصف علی زرداری نے اپنے دل کی اتنی سے بات کہنے کے لئے بہت دیر کردی ہے اگر اُنہیں اخبارات کے مدیران اور الیکڑانک اینکر پرسنز سے یہ ہی کچھ کہنا تھا اور اِنہیں اپنی انتخابی مہم کے لئے اپنا ہم خیال بنانا ہی تھا تو اُنہوں نے ملک میں آنے والے اِس تباہ کن سیلاب کا انتظار کیوں کیا....؟؟ اگر اِنہیں عوامی توقعات کی اتنی ہی فکر ہے تو جنابِ صدر! عوام کو آپ کی حکومت سے اُس وقت ہی ہر قسم کی اچھی توقعات ختم ہوگئی تھیں جب آپ کی جمہوری حکومت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ایوان میں اپنے اعتماد کا ووٹ لینے اور بحیثیت وزیراعظم کا حلف اٹھانے کے بعد اراکین اسمبلی اور پاکستانی قوم سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ ہماری اوّلین ترجیحی یہ ہوگی کہ ہم اقتدار سنبھالنے کے بعد سو دن کے اندار ملک کی سترہ کروڑ عوام کو ملک سے مہنگائی، بیروزگاری، توانائی کے بحران اور کرپشن کے خاتمے سمیت ہر معاملات زندگی میں مثالی ریلیف دیں گے جس کا وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے اپنے وزیراعظم بننے کی خوشی میں شدت ِ جذبات میں وعدہ بھی کیا تھا مگر افسوس کہ آپ کے وزیراعظم اور آپ کی حکومت کا عوام سے کیا گیا یہ وعدہ صرف وعدہ ہی رہ گیا اور یوں تب سے عوام آپ اور آپ کے وزیراعظم اور آپ کی حکومت سے بری طرح سے مایوس ہوگئے تھے کیوں کہ تب ہی سے اِن کے کے حصے میں بے لگام مہنگائی، بھوک و افلاس اور تنگدستی کے سوا اور کچھ نہیں آیا اور اَب رہی سہی کسر سیلاب کی تباہ کاریوں نے پوری کردی ہے۔ یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ دراصل بات یہ ہے کہ حکومت کو اپنا اقتدار سنبھالتے ہی اپنی ناقص کارکردگی کا بھی احساس ہوچکا تھا اور اِسے یہ بھی معلوم تھا کہ اِس کے ساتھ جو ٹیم( کچن کابینہ کی شکل میں )ہے وہ بھی بس ایسی ہی جیسے صرف دیکھا جاسکتا ہے مگر اِس سے کام لینا مشکل ہوگا جو بعد میں حکومت کے لئے پریشانیاں پیدا کرنے کی باعث ہوگی اور آج اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی اِس ہی لحاظ سے عوام کی نظر میں اطمینان بخش نہیں ہے جس طرح اِس ہی پی پی پی کے سابقہ دورِ حکومتوں میں اراکین پارلیمنٹ کی رہا کرتی تھی۔ بہرکیف! اَب کیا ہوسکتا ہے موجودہ حکومت اللہ اللہ کر کے اپنے دو اڑھائی سال گزار چکی ہے اور باقی کے ابھی گزارنے باقی ہیں ایسے میں ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت کو آئندہ کے سالوں میں اپنے کارکردگی بہتر بنانے اور عوام میں اپنا کھویا ہوا وقار بحال کرنے کا موقع دیا جائے۔ اور عوامی سطح سے لے کر اخبارات اور الیکڑانک میڈیا کے اینکر پرسنز بھی اَب اِس حکومت کے پچھلے دو اڑھائی سالہ کارناموں اور سیلاب سے پیدا ہونے والی موجودہ صُورت حال پر اِسے کھلم کھلا اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنانے کے بجائے اِن پر خاموشی اختیار کر کے پردہ ڈالنے کی کوشش کریں اور عوام کو وہ بتائیں جیسا حکمران چاہتے ہیں۔ ویسے یہ بات تو حقیقت ہے کہ اَب اخبارات اور الیکڑانک میڈیا پرسنز عوام کو حکومت سے متعلق کچھ نہ بھی بتائیں اور حکومت پر جا بجا اپنی تنقیدوں کا سلسلہ بھی بند کردیں تو بھی عوام کو حکومت پر ایک رتّی برابر بھی اچھائی کا گمان نہیں ہوگا۔ اور بات رہی آئندہ اتنخابات میں عوام سے ووٹ لینے کی تو پی پی پی کی قیادت یہ بھول جائے کہ عوام اِس کی موجودہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے نہ صرف اِیسے بلکہ پی ایم ایل (ن)و(ق) اور (عوامی) سمیت کسی بھی مذہبی جماعت یا اے این پی کو اَب دوبارہ اقتدار میں دیکھناچاہتے ہیں۔ کیونکہ عوام سب کو آزما چکے ہیں۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 896505 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.