لینڈ مافیا کون؟

نارتھ ناظم آباد شپ اونرز کالج کے بالمقابل کھیل کے میدان پر قبضہ کر کے بنگلوں کی تعمیر کی گئی۔ وہیں پر پارک کی زمین پر قبضہ کر کے پارک کی حدود کو محدود کر کے عالیشان فلیٹ بناکر فروخت کیا جارہا ہے اس طرح کے بیشمار مثالیں تو نہ صرف نارتھ ناظم آباد بلکہ گٹر باغیچہ جہاں کئی بلوچوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ نادرن بائی پاس سے ملحق اورنگی ٹاؤن میں غریب اردو بولنے والے محب وطن پاکستانی بہاریوں کے مکانات کو ٹاؤن کے اہل کاروں اور مشینروں کو استعمال کر کے بلڈوز کرنے کے بعد چالیس ہزار روپے کے عوض کارکنوں اور انکے رشتہ داروں میں فی پلاٹ ایک سو بیس مربع گز کے حساب سے فروخت کیا گیا۔ اور الطاف نگر کے نام سے بستی بسائی گئی اور اورنگی ٹاؤن کے تمام وسائل کو انکے عوام کو محروم رکھ کر الطاف نگر کی تعمیر و ترقی پر صرف کیا گیا۔ سرکاری دستاویزات میں قدیم کچی بستی ظاہر کر کے اسے لیز دیکر قانونی تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔ اور دستاویزات پر گلشن ضیا ء کالونی کا حصہ قرار دیا گیا۔ مگر گلشن ضیاء سے سوتیلی اولاد جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے کہ کئی دہائیوں سے قائم علاقہ تو آج بھی پانی، بجلی اور سڑکوں جیسی نعمت سے محروم ہے لیکن چند سال پیشتر مصطفٰٰے کمال کے دور نظامت میں قائم ہونے والی الطاف نگر میں ان ہی کے وسائل سے تمام سہولیات سرکاری و غریب اردو بولنے والے بہاریوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے سرکاری وسائل کو بے دریغ استعمال کیا گیا۔ اسی طرح سرجانی ٹاؤن کی نجی و سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا گیا۔ اگر کسی کو کسی قسم کا شک ہے تو وہ ان علاقوں کا خود دورہ کریں اور بتائیں لینڈ مافیا کون؟

میں یہ نہیں کہتا کہ اے این پی کے لوگ پارسا ہیں۔ بلکہ یہ بات کہتے ہوئے عار محسوس نہیں کرتا کہ یہ دونوں تنظیمیں اپنے لوگوں کو دھوکہ دے کر کے ایک دوسرے کا خون نا حق بہا رہے ہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھی بھی ہیں۔ یہی وجھ ہے کہ نادرن بائی پاس کے ملحقہ علاقوں میں دونوں نے ساتھ ساتھ زمینوں پر قبضہ کرکے بہت سے ہاؤسنگ پروجیکٹ چلا رہے ہیں۔ جو رہنما ٹیلویژن پر لینڈ مافیا کا راگ الاپتے نہیں تھکتے انہی کے پراجیکٹ شہر کے مختلف علاقوں میں چل رہے ہیں۔

دونوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ بےگناہوں کا خون بہہ رہا ہے اور اس پر کس طرح قابو کیا جائے بلکہ دونوں اندرون خانہ چاہتے ہیں کہ یونہی لاشوں کی سیاست ہوتی رہے اور نمبر گیم کا سلسلہ جاری رہے۔ اور اب قلعی کھل کر سامنے آگئی ہے جب انقلاب فرانس کا نعرہ دیکر امیر اور غریب کے درمیان نفرتوں کے خلیج کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ اہل ثروت لوگ اس ملک کو خیر باد کہ کر چلے جائیں اور دہشت گردوں کے رحم و کرم پر عوام کو چھوڑ دیا جائے۔ ان تمام معاملات اور کھیل سے دوسری سیاسی جماعت مبرا نہیں بلکہ ان دست راست ہیں اور برابر کے شریک ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ براء نہیں ہوسکتے کہ یہ ایم کیو ایم اور اے این پی کی لڑائی ہے بلکہ جہاں حکمراں طبقہ کرسی اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیئے آنکھیں بند کر کے نہتے لوگوں کے جانوں کا تحفظ کرنے میں ناکام ہے بلکہ وہیں معصوم جانوں کو تحفظ نا فراہم کرنے کے جرم کی مرتکب بھی ہے۔ اسی طرح گو امریکہ گو امریکہ کہنے والے اور انسانی حقوق کے علمبردار بھی خون نا حق کے بہنے کے خلاف آواز نہ اٹھانے کے جرم کے مرتکب ہیں۔

انہیں سیالکوٹ کے دو معصوم بچوں کی موت پر اس وقت افسوس ہوتا ہے اور احتجاج سوجھتا ہے جب وہ ابدی نیند سو جاتے ہیں مگر وہیں انہیں درجنوں بے گناہوں اردو بولنے والے بہاری محب وطن کا بنارس، کٹی پہاڑی اور میٹروول کے دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مزدور، ملازم، طلبہ وطالبات کی نعشیں نظر نہیں آتی اور ہفتوں اورنگی ٹاؤن کے بیرونی راستوں کو اورنگی والوں پر بند کر دی جاتی ہے اور لوگ اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اپنے ہی ملک اپنے ہی شہر میں اور اپنے ہی ووٹ دیے ہوئے نمائندوں کی موجودگی میں تیسری حجرت پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم اپنے ووٹرز کو اپنے دور اقتدار میں جب یہ وفاق اور صوبوں میں اقتدار کے مزے نہ صرف لوٹ رہے ہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے طویل گورنر جس کا تعلق اسی صوبہ سندھ سے ہے اس کے اپنے دور اقتدار میں اردو بولنے والے محب وطن بہاری تیسری حجرت پر کیوں مجبور ہیں؟کیا کسی صاحب عقل و دانش ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی تنظیموں کے رہنماؤں کے پاس اس کا جواب ہے۔ کیا آپ بھائی بہنوں اور بزرگوں اور ماؤں کے پاس اس کا جواب ہے؟ کون ہے جو گزشتہ بائیس سالوں سے اورنگی ٹاون کی سیاسی نمائندگی کے لئے ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ اگر ایم کیو ایم اردو بولنے والے لوگوں کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام زبان بولنے والوں کی نمائندہ جماعت ہے یا بننے کی خواہش رکھتی ہے تو پھر یہ دہرا معیار کیوں کہ اس کے ووٹرز ہجرت کرنے پر مجبور کیوں؟

برائے مہربانی ہم سب اندھے بہرے گونگے کی طرح زندگی کیوں گزار رہے ہیں اور یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ بربادی صرف چند طبقہ اور کمیونٹی کی بربادی ہے من حیث القوم کی نہیں!

خدارا سوچئے اور اپنے اپنے رہنماؤں کو بھی سوچنے پر مجبور کریں۔ تمام تر ذات پات، قوم و قبیلے، تنظیمی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کہ ہم پہلے مسلمان ہیں پھر ہم سب انسان ہیں اور ایک انسان کی قتل کو پوری انسانیت کی قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تو ہم کبھی کسی بہاری کے مرنے پر یا پھر کسی پٹھان پشتون کے مرنے پر ہماری روح نہیں تڑپ جاتی-ہم کیوں نہیں سوچتے کہ قتل ہونے والا ہمارا پاکستانی بھائی ہے خواہ وہ کوئی زبان بولتا ہو۔

سوچئے قبل اس کے کہ وقت گزر جائے اور بحیثیت پاکستانی قوم ہم کف افسوس ملتے رہ جائیں۔
Zafar Khan
About the Author: Zafar Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.