پھر نہ بھول ہوئی کبھی ( حصہ اول)

 اپنے کام سے جیسےہی فارغ ہوئے فورا پہلی بس پکڑی اور گھر کی طرف رواں دواں ہوئے … ہمیں کوئ ضروری کام بھی تھا غالبا… مگر ہائے! ہماری یہ یاداشت جوکہ بہت کمزور واقع ہوئ ہے … ذہن پر زور ڈالنےکے باوجود بھی یاد نہ آسکا کہ آخر ایسا کیا ضروری کام تھا… خیر راستے بھر اس کام کے بارے میں سوچتے رہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہ ہمیں اچانک سامنے دیکھ کر گھر والے کس قدر حیران ہونگے! کیونکہ ہماری آمد تو اگلے ہفتےمتوقع تھی اور ہم اس سے قبل ہی وقوع پذیر ہونے جارہے تھے…مگر جس مقصد کے تحت آمد ہے..وہ ہی یاد ہی نہیں آرہی..پھر بھی ہم آرہے ہیں…خیر ہم اپنی منزل کے قریب پہنچ چکے تھے اور چند ہی منٹ بعد ہم گھر کے دروازے پر تھے…ہم نے خوشی خوشی دستک دی!اندر سے کوئ جواب نہیں آیا…ہم نے یہ سلسلہ جاری رکھا مگر وہاں ہنوز خاموشی چھائ رہی…ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا ایسا کبھی ہوا تو نہیں…وہ تو شکراللہ کا کہ ہمارے پاس زائد چابی موجود تھی…جیسے ہی گھر کے اندر داخل ہوئے اک اور جھٹکے سے دوچار ہوئے…گھر بلکل ویران پڑا تھا دور دور تک کسی جاندار کی موجودگی کے کو ئ نشان دکھائ نہیں دے رہے تھے …ہم نے جھٹ پٹ موبائل نکالا ابو حضور کو کال ملائ گھنٹی بجتی رہی… پھر بھائ کو ملائ وہاں سے بھی کوئ جواب نہیں آیا... پھر بہن سے رابطے کی کوشش کی …وہاں بھی یہی صورت حال...ایسا کبھی ہوا نہیں …عجب عجب وسوسے آنے لگےہم نے لاحول پڑھی اور کچن کہ جانب دوڑ لگادی!!

کیونکہ بھوک سے اس قدر نڈھال ہوریے تھے کہ پیٹ میں باقاعدہ چوہوں نے اچھل کود شروع کر دی تھی… مگر جوں ہی کچن میں جھانکا خالی برتن ہمارا منہ چڑانے لگے…ہمارا دل ڈوبتا محسوس ہوا رہ رہ کر یہ خیال آتا رہتا آخر یہ سب لوگ بیک وقت ایسی کونسی جگہ چلے گئے ہیں...اپنے پیٹ میں اس اچھل کود کو روکنے کیلئے لا محالہ ہوٹل کا رخ کرنا پڑا... وہان پہنچ کر مرغ چھولے لسی اور نان سے پورا پورا انصاف کیا.. یوں ایک گھنٹہ تو آرام سے گزر گیا َسوچا کہ گھر والے اب تک آچکے ہونگے...لیکن گھر اب بھی سناٹے کی کہانی پیش کر رہاتھا..… ہمیں تشویش ہونے لگی آس پاس سب جگہ معلوم کیا کسی کو کوئ خبر نہ تھی... بالاآخر ہم نےخود کو اس کاہش سے صبر کرنے کا کہہ کر باہر نکالا.!!

کچھ دیر اور گزری تو دروازہ کھولنے کی آواز سی آئ ساتھ قدموں کی چانپ بھی.. ہم تیزی سے باہر کی جانب لپکے... سب ہمیں یوں اچانک سامنے دیکھ کر حواس باختہ ہوگئے اور حیرانگی سے دیکھنے لگے... اباحضور کے چہرے پر سوالیہ انداز صاف واضح تھا جیسے پوچھ رہے ہوں... برخور دار ! آپ یہاں کیسے...؟؟ ہم نے انشائیہ انداز اپناتے ہوئے سب کچھ بتا دیا... پھر اپنی کلفت بھی گوش گوار کی... کہ سب یکا یک کہاں چلے گئے تھے... جب بھائ جان نے بتایا کہ وہ سب کے سب ختم نبوت کے سیشن سے آرہے ہیں تو ہم یہ سن کے گنگ رہ گئے!!

دل کی عجیب کیفیت تھی امی جان کا بچپن میں بادام کھانے کیلئے پیچھے لگنا یاد آیا... اگر بادام کھا لئے ہوتے تو یوں اتنی اہم چیز نہ بھولتے جس کیلئے ہم آئے بھی اور کیا کہنے ہماری یاداشت کے ہمیں یہ یاد ہی نہ رہ سکا... ہم نےرشک بھری نگاہ ہر اک پر ڈالی... دل بھر آنے لگا... اپنے جذبات کو سنبھالتے ہوئے وہاں سے کھسک لئے اور اپنے کمرے میں پہنچ گئے...!!!

آنکھوں میں پانی اترنے لگا... دل اداس ہونے لگا... جب سے ختم نبوت سے جڑے تھے ہم نے اسکے سیشن میں شرکت کی بھر پور کوشش کی تھی اور ایسا شاز ونادر ہی ہوپایا تھا کہ کسی سیشن میں شرکت نہ ہوپائی ہو...اسکی ہر سرگرمی میں آگےآگے رہتے... اپنے کتنےہی دوستوں کو اس میں شامل کر چکے تھے بفضل ربی!!... مگر آج ایسی بھول ہوئ کہ ہم یاد ہی نہ رکھ سکے.. اپنی اس محبت کو ہم... کیا نام دیں.!!. یہ نہیں جانتے... مگر اتنا ضرور پتہ ہے ختم نبوت سے عشق ہوگیا ہے.. اس سے جڑی کسی بھی چیز میں ہم سے بھول ہوجائے تو ہماری کیفیت ہی عجیب ہوجاتی ہے... پھر کسی چیز میں دل نہیں لگتا...!!
آنے کو تو سنسار میں آئے ہیں نبی اور بھی
پر آیا ہے نہ آئے گا محمد سا کوئ اور
کچھ ایسی بات ہے فسانے میں نبی کے
جتنا بھی سنا چاہ بھی اتنی ہی بڑھی اور

کچھ دن تک افسردگی چھائ رہی... چہرہ لٹک گیا تھا ہمارا... روز اللہ تبارک تعالی سے دعا کرتے... کے کوئ سیشن پھر سے ہوجائے اور ہماری شمولیت بھی یقینی ہو ... امی جان ہمیں سمجھاتی رہتیں.. اور اباحضور ہماری یہ تڑپ ... محبت دیکھکر خوش ہوتے اللہ کا شکر ادا کرتے..اور یہی کہتے.. بار بار..!!!
محمد کی محبت دائرہ ہے جلوہ حق کا
اسی کو ابتدا کہئے اسی کو انتہا کہئے
 
Fatima Ishrat
About the Author: Fatima Ishrat Read More Articles by Fatima Ishrat: 30 Articles with 29398 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.