قوم کی جنرل کیانی سے مستقبل میں توقعات

چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع پر تبصروں اور تجزیوں کا ایک سلسلہ ہے کہ چل رہا ہے کوئی تائید کر رہا ہے اور کوئی اعتراض۔ اگرچہ موافقت مخالفت سے بہرحال زیادہ ہے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ مؤثر دلائل دے رہے ہیں۔ معترضین کا یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ کوئی شخص نا گزیر نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ اداروں کو شخصیات سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے۔ یہ دونوں باتیں بالکل صحیح لیکن اگر اس وقت ملکی حالات کا جائز ہ لیا جائے اور اس میں جنرل کیانی کے کردار کو پرکھا جائے تو حکومت کے اس فیصلے کو بہتر فیصلہ سمجھا جاسکتا ہے۔ ہاں اس کام کو جس طریقے سے کیا گیا اس نے ہی شاید اس معاملے کو کسی حد تک متنازعہ بنا دیا۔ جنرل کیانی ایک سرکاری ملازم ہیں حکومت کئی بار سرکاری ملازمین کی مدت ملازمت میں توسیع کرتی رہتی ہے۔ اگر اس توسیع کو بھی اسی طرح خاموشی سے کیا جاتا تو جو تھوڑا بہت اعتراض ہو رہا ہے نہ ہوتا۔ اسکے لیے خاص کر وزیراعظم کی تقریر اور 2013 تک تمام اعلیٰ ترین عہدیداروں یعنی صدر، وزیرِاعظم، چیف جسٹس اور آرمی چیف کا اپنے اپنے عہدوں پر رہنے کی بات کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ خیر حکومت نے جو کیا وہ تو کر لیا اور جو طریقہ کار اپنایا وہ ایک الگ بحث ہے لیکن کیا پاکستان کے موجودہ حالات میں اس توسیع کو غلط قرار دینا درست ہوگا جب کہ افواجِ پاکستان اس وقت کئی محاذوں پر برسرِپیکار ہے۔ سرحدوں کی حفاظت تو خیر اس کی اولین ذمہ داری ہے اور اس ذمہ داری میں عوام کی پشت پناہی کے علاوہ اس کا کوئی مددگار نہیں لیکن اْسے سرحدوں کے اندر جس خطرناک ترین جنگ کا سامنا ہے بسا اوقات اس میں اْسے عوام کی پشت پناہی بھی میسر نہیں ہوتی۔ ایسے میں جنرل کیانی نے پیشہ ورانہ انداز سے حالات کو قابو کیے رکھا۔ انہوں نے جس وقت فوج کی قیادت سنھبالی اس وقت جنرل مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور فوج کے کردار پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھ رہی تھیں اگرچہ کیا دھرا ایک شخص کا تھا لیکن نامقبولیت پورے ادارے کے حصے میں آرہی تھی وہی فوج جسے لوگ سر آنکھوں پر بٹھاتے تھے اب اسکے بارے میں منفی رائے دی جانے لگی تھی جنرل کیانی کے لیے یہ ایک اور محاذ تھا جسے انہیں سر کرنا تھا اور انہوں نے بڑی مہارت سے اس محاذ کو سنبھالا جس کے لیے انہوں نے فوج کو نہ صرف 2008 کے انتخابات سے دور رکھا بلکہ سول اداروں سے فوجی افسران کو واپس بلا کر انتظامی امور سے بھی الگ کر دیا قومی معاملات میں انہوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ججوں کی بحالی کے معاملے میں انکا کردار سب ہی جانتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے پس پردہ رہ کر اس معاملے کو سنبھالا۔ یہ درست ہے کہ یہ سب ان کے کام نہ تھے لیکن ایک عام محب وطن شہری بھی اگر کسی قومی معاملے کو سلجھا سکے تو ضرور اس کی کوشش کرتا ہے تو ایک اعلٰی عہدے دار کا تو یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ضرور یہ قدم اٹھائے۔ کیری لوگر بل پر جب حکومت نے قومی وقار کو ایک طرف رکھنے کی کوشش کی تو ایک بار پھر جنرل کیانی نے ایک اچھے رہنما کا کردار ادا کیا یوں آپ کہہ سکتے ہیں کہ جب بھی نا پختہ کار سیاسی حکومت کے قدم لڑکھڑائے یا ڈگمگائے تو جنرل کیانی نے جمہوریت کو چھیڑے بغیر اس کی مدد کی۔

دوسری طرف انہوں نے سوات، جنوبی وزیرستان اور خیبر ایجنسی وغیرہ میں آپریشن کامیابی سے مکمل کیے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنے کا فیصلہ بھی انہوں نے ہی کیا اور ظاہر ہے یہ سب کچھ انہوں نے قومی مفاد میں ہی کیا لہٰذا ان پر کسی کو اعتراض کرنے کے لیے کوئی ٹھوس وجہ نہیں مل پا رہی۔ ملکی اور قومی مفاد بہرحال اولین ترجیح ہونی چاہیے اور اسی اصول کو انہوں نے اپنائے رکھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوسرا چیف آئے تو کیا وہ یہ سب کچھ نہ کرے گا تو یقیناً کرے گا کیونکہ فوج ایک منّظم ادارہ ہے یہاں کا ہر افسر اتنی ہی قائدانہ صلاحیتوں کا مالک ہے جتنے جنرل کیانی اس لیے جہاں تک بات رہی ترّقی کے منتظر جرنیلوں کی تو میرے خیال میں جہاں ملکی مفاد ذاتی مفاد سے ٹکرائے تو اپنی تربیت کے عین مطابق ہر فوجی افسر اپنے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور یقیناً اس معاملے میں بھی انہیں ایسا کرنے میں کوئی تاّمل نہیں ہوا ہوگا۔

درحقیقت توسیع کے بعد کا یہ دور جنرل کیانی کے لیے ایک مشکل ترین دور کا آغاز ہے۔ قوم اب تک انکو جتنا آزما چکی ہے اس کے نتائج کی بنیاد پر ان سے توقعات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ فوج کو انتظامیہ اور حکومت کے کاموں میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اور ایک بہترین فوج کو اپنی تمام تر توجہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور سرگرمیوں پر مرکوز رکھنی چاہیے لیکن اس وقت پاکستان جن گوں ناگوں مسائل سے دوچار ہے اور انتظامی اور سیاسی امور میں جس طرح کی عادات اپنائی جاچکی ہیں ان کی درستگی کے لیے جو شخص یا ادارہ بھی آگے بڑھے عوام اسے خوش آمدید کہیں گے اور فوج اپنی بہترین صلاحیتوں کی وجہ سے حالات کو سدھارنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے کہنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ جنرل کیانی کو سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے کر مسائل ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے بلکہ جس طرح انہوں نے کیری لوگر بل یا ججوں کے معاملے میں پس پردہ رہ کر ملک کے بہترین مفاد کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا اب انہیں دوسرے مسائل کی طرف توجہ دینا چاہیے۔ عالمی سطح پر جس طرح پاکستان کو کرپٹ ترین ممالک میں شامل کیا جا رہا ہے یہ داغ دھونے میں انہیں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور اگر کرپشن ملک سے ختم ہوگئی تو سمجھئے کہ ملک خود بخود ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور عوام کے بہت سے مسائل بھی خود ہی ختم ہو جائیں گے جمہوریت کو derail کرنے کا جو الزام فوج پر لگایا جاتا ہے اگر اس کی حقیقت پر غور کیا جائے تو اس میں بھی زیادہ قصور سیاست دانوں کا ہی نظر آتا ہے جو اپنے اقتدار اور وزارتوں کے حصول کے لیے ہر ایسے جرنیل کی دل کھول کر حمایت اور تائید کرتے ہیں اور جب ان کے مفاد پر زد پڑتی ہے تو ایک جنرل کے پیچھے پوری فوج کو مورد الزام ٹھرانے لگتے ہیں۔ جنرل کیانی نے اب تک تو اس تاثر کو بہت حد تک زائل کیا ہے اور قوم ان سے آئندہ بھی ایسی ہی توقع رکھتی ہے۔

بہرحال ایک عام پاکستانی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آرمی چیف کون ہے وہ ملک کی بھلائی چاہنے والے ہر چیف کو سر پر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور جنرل کیانی کے بارے میں ایک عام پاکستانی ایسی ہی سوچ رکھتا ہے۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 513609 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.