ترکی میں نظریہ کی فتح عوام نے اپنے خون سے نئی تاریخ رقم کردی

ترکی میں ’بغاوت‘ ایک بم تھا جو رات کے اندھیرے میں گرا، لیکن اس بم کو ترکی عوام نے پھٹنے سے پہلے ہی اپنے خون ، جوش ، جذبے اور قربانیوں ناکام بنا دیا۔ فوجی بغاوت کی خبریں رات تک ساری دنیا میں پھیل گئی تھیں۔ لیکن صبح ہوتے ہوتے ترک عوام نے اپنے بے مثل جذبے اورقربانیوں سے ایک اور تاریخ رقم کردی ہے۔ اب سے تھوڑی دیر پہلے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ اس بغاوت کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔ سولہ جولائی کی صبح استنبول ایک روشن اور تابناک صبح تھی۔ جس نے تاریکی کو شکست دے دی ۔ عوام نے باغیوں اور ان کے حمایتیوں کو بھرپور جواب دیا۔ وزیر اعظم بن علی یلدرم نے انقرہ میں ملکی پارلیمان کا ایک ہنگامی اجلاس کیا اور اب پریس کانفرینس کررہے ہیں۔ میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق اس ناکام بغاوت کے دوران انقرہ میں پارلیمان کی عمارت کو بھی شدید تقصان پہنچا، جس کی وجہ باغی فوجی اہلکاروں کے زیر استعمال جنگی ہیلی کاپٹروں سے کیے جانے والے فضائی حملے تھے۔ ان حملوں اور پھر مسلح بغاوت کے کچل دیے جانے کے بعد سرکاری ٹیلی ویژن سے نشر کی گئی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح ان حملوں سے پارلیمان کی عمارت کی متعدد دیواریں گر گئیں اور بہت سی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے۔ ترک فوج اور عوام کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ لیکن رات کی تاریکی میں جب فوج نے عوام پر گولیاں اور بم برسائے تو وہ غم وغصہ سے بپھر گئے۔ اور پھر گلی کوچوں اور سڑکوں پر ایک جنگ کا آغاز ہوا۔ ناکام بغاوت کے آغاز پر ترک فوج کے ایک حصے نے متعدد ایف سولہ جنگی طیارے اور جنگی ہیلی کاپٹر اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ صدر رجب طیب ایردوآن کے دفتر کے مطابق یہ بغاوت ’ترک فوج کے اندر ایک گروپ‘ نے کی تھی اور اس کا یہ عمل ’عسکری کمان کے معمول کے طریقہ کار سے باہر‘ تھا۔ صدر ایردوآن کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ملکی فوج کو ایسے تمام باغی یا باغیانہ سوچ رکھنے والے عناصر سے پاک کر دیا جائے گا۔ رات میں فوج کے ایک گروپ نے ایک ٹی وی چینل کی عمارت میں داخل ہوکر ایک اینکر سے فوجی بغاوت اور مارشل لاء اور کرفیو کے نفاد کا اعلان کرایا، دوسری جانب صدر طیب اردگان کے ویڈیو پیغام نے عوام کو ایک جوش اور جذبہ سے گھروں سے نکلنے کی راہ ہموار کردی۔ بغاوت ناکام رہنے کے بعد مشتعل شہریوں نے آبنائے باسفورس پر بنے ایک پل پر تعینات باغی فوجیوں کی پٹائی بھی کی۔ٖ اس بناکام بنا دی گئی فوجی بغاوت میں قریب دو سو افراد مارے گئے-

فوجی بغاوت کی اس خونریز کوشش کے دوران کم از کم 194 افراد مارے گئے جبکہ فوج کے ڈیڑھ ہزار سے ز ائد اہلکاروں (1563 فوجیوں اور افسران) کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ لیکن یہ محتاط اندازہ ہے، اس کی تفصیلات میں اصل نقصان کا اندازہ ہوگا۔ فی الحال ان ہلاکتوں کی تصدیق آرمڈ فورسز کے قائم مقام سربراہ جنرل امید دوندار نے کی ہے۔ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے بقول گرفتار کیے گئے فوجی اہلکاروں میں پانچ جنرل اور کم از کم 29 کرنل بھی شامل ہیں، جنہیں فوج سے برطرف کر کے حراست میں لیا جا چکا ہے۔ وزیر اعظم بن علی یلدرم کے مطابق گزشتہ رات اس ناکام بغاوت کے دوران ایک ایسا فوجی جنرل مارا بھی گیا، جو اس بغاوت کا حصہ تھا۔

ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس بغاوت کے پیچھے مرکزی محرک شخصیات کون سی تھیں۔ لیکن فتح اﷲ گولن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اس کے پیچھے ہیں۔ اور وہ امریکہ میں بیٹھے ہیں۔ جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ او کے پیچھے کونسی طاقتیں ہیں۔اس ناکام بغاوت کی بہت سے اعلیٰ فوجی کمانڈروں اور ملک کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں صدر ایردوآن اور وزیر اعظم یلدرم کی حکمران پارٹی اور اپوزیشن کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ بغاوت کی کوشش کے دوران صدارتی محل میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 13 فوجی گرفتار کر لیے گئے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے حکم دیا ہے کہ باغیوں کے زیر استعمال لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کو مارا گرایا جائے۔ ایک ترک عہدیدار نے بتایا کہ صدر ایردوآن کہ حامی ترک فضائیہ کے لڑاکا طیارے مغربی ترکی کی اسکی شہر ائر بیس سے اڑان پھرنے کے بعد باغیوں کے زیر استعمال جہاز اور ہیلی کاپٹروں کو تباہ کر رہے ہیں۔حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کا آغاز جمعے کی شام ساڑھے سات بجے ہوا جب استنبول کے مرکزی پلوں پر ٹینک کھڑے کر دیے گئے۔کچھ دیر بعد انقرہ کی سڑکوں پر فوجی نظر آنے لگے اور جنگی طیاروں نے بھی شہر پر پروازیں شروع کر دیں۔فوج سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے سرکاری ٹی وی پر یہ اعلان کیا کہ ملک میں مارشل لا اور کرفیو لگا دیا گیا ہے، اقتدار ان کے پاس ہے اور ایک ’امن کونسل‘ اب ملک کا نظام چلائے گی۔استنبول کے مشہور تقسیم چوک کے قریب اور انقرہ میں پارلیمان کی عمارت میں دھماکوں کی آوازیں بھی سنی گئیں۔دوسری جانب صدر اردوغان نے آئی فون کی فیس ٹائم سروس کی مدد سے ترک ٹی وی پر بیان دیا جس میں انھوں نے عوام سے بغاوت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی اپیل کی۔

اس اعلان کے بعد عوام کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور باغی فوجیوں کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔ صدر رجب طیب اردوغان بیرونِ ملک سے واپس استنبول پہنچ کر اس بات کا اعلان کیا کہ وہ موجود ہیں ان کی حکومت نے ایک بار پھر ملک کا انتظام سنبھال لیا ہے۔صدر اردوغان نے اس فوجی اقدام کو ’ملک سے بغاوت‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فوج میں صفائی ہونی چاہیے۔ترک صدر نے علی الصبح اپنے نشریاتی خطاب میں کہا کہ فوج کے ایک چھوٹے سے گروہ کی طرف سے بغاوت کی سازش کو عوام نے ناکام بنا دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج میں شامل غداروں کو سخت سزا دی جائے گی۔ترکی کی صورتحال پر عالمی رہنماؤں نے بھی تشویش کا اظہار کیا۔ترک فوج کے مختلف شعبوں کے چوٹی کے کمانڈرز نے ٹیلی ویژن پر آکر جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کو رد کرنے کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ اسی غیر یقینی صورتحال میں ہفتے کی صبح ترک صدر رجب طیب ایردوآن استنبول کے ہوائی اڈے پہینچے تو ان کے سینکڑوں حامیوں نے وہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ عوام نے اپنے عزم سے اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے۔ایردوآن کا کہنا تھا کہ وہ اپنے عوام کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے بلکہ اپنے ملک میں ہی رہیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بغاوت کرنے والوں کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہو گا۔

ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ بغاوت کی اس کوشش کے بعد ملکی فوج میں ’آپریشن کلین اپ‘ ناگزیر ہو گیا ہے۔ ایردوآن کا کہنا تھا کہ ملکی عوام کی وجہ سے یہ بغاوت ناکام ہوئی ہے۔ ایردوآن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بغاوت کے پیچھے امریکا میں مقیم ترک مذہبی رہنما فتح اﷲ گؤلن کا کردار تھا۔ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق انقرہ اور استنبول سے کم ازکم پچاس باغی فوجیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم ساتھ ہی ان دو اہم شہروں میں تشدد کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ جمعے اور ہفتے کی رات کے دوران وہاں متعدد دھماکوں کی اطلاع بھی ملی جبکہ ذرائع ابلاغ نے بتایا کہ مسلسل فائرنگ بھی ہوتی رہی۔ترکی کے حکام ملک کو جلد از جلد معمول پر لانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ وہ ہوائی اڈوں، پْلوں اور سڑکوں کو دوبارہ کھولنے میں مصروف ہیں۔ ٹینک کے گولوں سے پارلیمنٹ کی عمارت کو شدید نقصان ہونے کے باوجود ممبران غیر معمولی بہادری سے ڈٹے رہے۔ترکی کی یہ بغاوت دراصل سیکولر عناصر کی جانب سے تھی۔ جو مسلسل طیب اردگان کے نظریاتی کردار اور اس کی جانب سے اٹھائے اقدامات اور ان کی عوامی مقبولیت سے خوفزہ ہیں۔ترکی کے ریسرچر مائیکل روبن کا کہنا ہے ’کیا بغاوت ناگزیر تھی؟ نہیں۔ لیکن جنھوں نے بغاوت کی ان کا سوچنا یہ تھا کہ وہ ترکی کو عوام سے دور اور نظریاتی لیڈرشپ سے بچا رہے ہیں۔ یہ عناصر اردگان کی حکومت میں بدعنوانی کے الزامات لگاتے ہیں۔ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔وہ ان کی جارحانہ پالیسیوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔ ان عناصر کا خیال تھا کہ ان کے لئے یہ آخری موقع ہے کہ ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس بغاوت کو فرد کرنے میں شوشل میڈیا کا کردار بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اردگان اس دوران ملک سے باہر تھے۔ انھوں نے اسکائپ پر اپنے عوام کو پیغام بھیجا۔ جبکہ ترکی میں موجود صحافی ایلو سکوٹ نے ایک پیغام ٹویٹ کیا ہے جو ان کے بقول صدر طیب اردوغان نے لوگوں کو بھیجا تھا۔ اس پیغام میں صدر نے عوام سے حکومت کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی۔انقرہ کے فوٹو گرافر پیرو کسٹیلانو نے کا کہنا ہے کہ عوام اس وقت سڑکوں پر آئی جب صدر اردوغان نے ٹی وی پر لوگوں سے حمایت کی اپیل کی۔

’لوگ مرکزی سکوائر کی جانب روانہ ہو گئے اور ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے سامنے آئے اور پھر خونریز جنگ شروع ہوئی۔‘’اس کی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ عوام اور فوج کے درمیان گہرے روابط ہیں یا کم از کم کل رات تک تھے۔ اسی لیے لوگ اس وقت حیران رہ گئے جب فوج نے لوگوں پر فائرنگ کی۔ اور اسی نے انھیں غم وغصے سے بھر دیا۔ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عام شہری ہیں۔

اے کے جماعت کی تشکیل کے ایک سال بعد ہی ترکی کے صدر طیب اردوغان 2002 میں برسرِ اقتدار آئے۔ 61 سالہ اردوغان 11 سال ترکی کے وزیر اعظم رہے اور اگست 2014 میں پہلے براہ راست منتخب ہونے والے صدر بنے۔ باغیوں نے ترکی کی فوج کے سربراہ اور ملٹری چیف آف سٹاف ہلوزی اکار کو انقرہ کے شمال مغربی علاقے میں واقع ایئر بیس میں ایک جگہ محصور کر دیا تھا۔ جنہیں بعد میں سکیورٹی فورسز نے ریسکیو کر لیا ہے۔اس سے قبل کہا جا رہا تھا کہ باغی فوجیوں نے ان کو یرغمال بنا لیا اس ’فوجی بغاوت‘ کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ استنبول کی یونیورسٹی کے سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز میں پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کے سربراہ گلنور ایبت نے ایک عالمی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں فوجی بغاوت کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات دکھائی دیتی ہیں۔تختہ الٹنے کی کوشش میں بہت کم تعداد میں فوجی شریک ہوئے۔سینیئر کمانڈر اس کوشش کی مذمت میں کھل کر سامنے آئے۔عوام اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے باہر نکلے۔امریکہ میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے ترکی کے رہنما فتح اﷲ گولین نے گو اس بات کی تردید کی ہے کہ ترکی میں حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے پیچھے ان کا ہاتھ ہے۔ لیکن کوئی ان کی بات پر یقین نہیں کر رہا ہے۔ بغاوت کی ناکامی کے باوجود برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز یہی خبر دیتی رہی کہ اس کو باغی فوجیوں کے گروہ کی جانب سے ایک بیان ای میل کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ وہ ’اب بھی پرعزم طریقے سے لڑ رہے ہیں‘۔ ترکی کی فوجی بغاوت کی ناکامی پر مغرب ششدر ہے۔ امریکہ جس نے مصر کی جمہوری حکومت کو ختم کرنے کے بعد ایک آمر فوجی جنرل کی حمایت کی ہے، وہ اس بار اپنی سازش میں ناکام رہا ہے اور اب وہ شکست پر اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ اور اب جمہوری ھکومت کی حمایت کے بیانات دے کر اپنی شرمندگی اور خفت کو چھپا رہا ہے۔
 
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387398 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More