بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی

بنگلہ دیش میں امیر اور لبرل خاندانوں کے نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور عالمی دہشت گرد تنظیموں سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں
بنگلہ دیش میں جوں جوں انتہا پسندی بڑھ رہی ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام میں اس کیخلاف غم و غصہ بھی بڑھتا جارہا ہے۔ امریکہ جو دنیا بھر میں اسلامک اسٹیٹ(داعش) کی بپا کی ہوئی دہشت گردی کے خلاف نام نہادانسداد کی کوششوں میں مصروف ہے، اس بارے میں فکر مند ہے کہ بنگلہ دیش جیسے ملک، جس میں سیکولرازم، آزادی رائے اور کرسچنوں اور ہندوؤں جیسی مذہبی اقلیتوں کا احترام پایا جاتا ہے، میں مسلم انتہا پسندی کی جڑیں کیوں مضبوط ہو رہی ہیں۔ وہ اس انتہا پسندی کو تمام خطے کے لیے نہایت خطرناک سمجھتا ہے۔ امریکا کی غیر معمولی تشویش اور غْصے کا سبب بنگلہ دیش میں ہونے والے خونریز حملوں کے ساتھ ساتھ خاص طور سے بنگلہ دیشی نثراد امریکی مصنف اویجت رائے پر ڈھاکا کی ایک گنجان سڑک پر گزشتہ برس فروری میں ہونے والا حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں نوجوان انتہا پسندوں کی طرف سے اقلیتوں اور اعتدال پسندوں کے خلاف دہشت گردانہ حملے، انہیں نفرت آمیز الفاظ سے نوازنے اور چاقو وغیرہ سے ان پر وار کرنے کا سلسلہ 2013ء میں شروع ہوا تھا۔ جس کی شدت میں اضافہ حال ہی میں ایک کیفے میں ہونے والا حملہ ہے۔جس میں بہت سے غیرملکی بھی مارے گئے ہیں۔بنگلہ دیش کے وزیر صنعت امیر حسین امو کا کہنا ہے کہ کیفے پر حملہ کرنے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھے۔بنگلہ دیشی حکومت نے بھارتی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے ٹی وی چینل ’’ پیس ٹی وی ‘‘ کی اندرون ملک نشریات پر پابندی عائد کردی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بنگلہ دیش کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اس حملے میں غیر ملکیوں سمیت 20 سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ پہلے یہ کہا گیا کہ یہ حملہ داعش کی جانب سے کیا گیا۔ لیکن پھر اس کا رخ مقامی تنظیموں کے جانب موڑ دیا گیا ہے۔ اب بنگلہ دیش میں نماز جمعہ کے دوران دئیے جانے والے خطبات کی بھی نگرانی اور اشتعال انگیز تقریروں اور خطبات کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کیئے جارہے ہیں۔حکومت اس بارے میں بھی کوشاں ہیں کہ ملکی ائمہ اور دانشوروں اپنے خطبات میں اسلام کی حقیقی تصویر پیش کریں اور دہشت گردی و انتہاپسندی کی مذمت کریں۔ حسینہ واجد کی حکومت بنگلہ دیش میں ایک جانب تو اسلام پسند کو کچلنے اور اپنے سیاسی مخالفین جماعت اسلامی کے رہنماوں کو نام نہاد جنگی جرائم میں پھانسی کی سزائیں دے رہی ہے۔ اور دوسری جانب سیکولر اور لبرل ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ لیکن اس کا جو ہولناک نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں امیر اور لبرل خاندانوں کے نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں اور عالمی دہشت گرد تنظیموں سے نظریاتی وابستگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان دہشت گرد حملوں کے بعد وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے سکولوں اور یونیورسٹیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ ایسے طلبا کی فہرست جاری کریں جو غیر حاضر ہیں۔ ڈھاکہ میں ’ہولی آرٹیزن بیکری‘ نامی ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے والے افراد ملک کے معروف سکولوں اور کالجوں سے تعلیم یافتہ تھے۔ جن میں شیخ حسینہ واجد کی پارٹی کے ایک وزیر کا بھتیجا بھی شامل ہے۔حملے میں ہلاک شدگان میں نو اطالوی، سات جاپانی، دو بنگلہ دیشی اور ایک ایک امریکی اور بھارتی شہری شامل تھے۔ اس انتہا پسندی کے لئے ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کو بھی مورد الزام ٹہرایا جارہا ہے۔ اورسماجی رابطے کی ایسی ویب سائیٹوں کے خلاف کارروائی بھی کی جارہی ہے۔ تعلیم یافتہ اور کالجوں یونیورسٹیوں کے امیر خاندانوں کے ان نوجوانوں کے اس رجحان سے اس تاثر کی نفی ہوئی ہے کہ دہشت گردی تنظیمیں تمام بھرتیاں مدرسوں سے کرتی ہیں۔بنگلہ دیش کی حکومت نے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کا الزام ملک میں موجود شدت پسند گروہوں پر عائد کیا ہے۔حالیہ حملوں میں ملوث افراد کا تعلق مقامی شدت پسند تنظیم جماعت المجاہدین سے بتایا جاتا ہے۔حملے میں ملوث تمام افراد کی عمریں 22 سال سے کم تھیں اور انہوں نے 20 یرغمالیوں کو بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔بنگلہ دیش کے تین نوجوانوں کی ملک میں ایسے مزید حملے کرنے کی دھمکی کی ایک ویڈیو بھی داعش نے جاری کی ہے۔

ویڈیو فوٹیج میں ایک نوجوان شخص خانہ جنگی کے شکار عرب ملک شام کے علاقے الرقہ کی ایک مصروف سٹرک پر کھڑے ہو کر بات چیت کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ الرقہ کو شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے کارکن اپنی نام نہاد خلافت کا دارالخلافہ قرار دیتے ہیں۔ معلوم ہوا ہیکہ ان نوجوانوں کا پس منظر بھی ایسا ہی تھا۔حکام نے بتایا کہ ان میں سے ایک ڈھاکہ میں دانتوں کا معالج تھا، دوسرا گائیک بننا چاہتا تھا جبکہ تیسرا جس نے اپنا چہرہ جزوی طور پر ڈھانپا ہوا تھا، غالبا مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔یہ تینوں نوجوان کئی ماہ سے لاپتا تھے۔گزشتہ دو سال کے دوران بنگلہ دیش میں سیکولر مصنفوں، غیر ملکیوں اور مذہبی اقلتیوں سے تعلق رکھنے افراد کو تواتر سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس بار عید کی نماز کے موقع پر بھی بم سے حملہ کیا گیا جس میں امام مولانا فرید الدین مسعود بال بال بچ گئے۔ اس حملے میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے۔سولہ کروڑ آبادی کے ملک بنگلہ دیش میں مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن اب یہ ملک سرکاری طور پر سکیولر ہے۔اب تک اعلیٰ بنگلہ دیشی قیادت ملک میں داعش اور القاعدہ کی جانب سے گذشتہ برس کے دوران ہونے والی پْرتشدد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے دعوؤں کو مسترد کرتی آئی ہے۔ حکومتی اہلکار اس میں مقامی شدت پسند یا سیاسی مخالفین کے گروہ کے ملوث ہونے کا اعتراف کرتے ۔بنگلہ دییش میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی مغربی ممالک بالخصوص امریکا کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔کچھ عرصے قبل امریکی ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کے ایک کارکْن اور ہم جنس پرستوں کے بارے میں نکلنے والے ایک رسالے کے ایڈیٹر ذولحاج منان کو بھی جاقووں کے وار کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ USAID کے کارکن اور ہم جنس پرستوں کے حقوق کے سرگرم ذولحاج منان کے بہیمانہ قتل کی ذمہ داری دہشت گرد گروہ القاعدہ کی جنوبی ایشیا کی ایک شاخ نے قبول کی تھی۔ القاعدہ کے اس دعوے کی گرچہ تصدیق نہیں ہو سکی ہے تاہم اس سے بنگلہ دیش کے سیاسی بحران میں اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکا کے ڈپٹی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلینکن نے کاکہنا ہے کہ ،، ڈھاکا حکومت چاہے سیکولر بلاگرز اور دیگر افراد پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا ذمہ دار چاہے جس حد تک بھی اپوزیشن کو ٹھہرائے، ایسے ثبوت موجود ہیں کہ انتہا پسند گروپ چاہے وہ مقامی ہوں یا یہ آئی ایس یا القاعدہ سے منسلک ہوں، یہی عناصر ملک میں سیکولر اور دیگر موقف رکھنے والوں کے قتل کے پیچھے ہیں۔انٹونی بلینکن نے امریکی ہاؤس آف فارن آفیئیرز کمیٹی سے اپنے خطاب میں کہا، ’’ان واقعات نے ہمارے ذہنوں میں آئی ایس یا داعش کی بنگلہ دیش میں پائی جانے والی جڑوں کے بارے میں خدشات بڑھا دیے ہیں۔ یہ وہ آخری چیز ہو گی جو ہم چاہیں گے۔ امریکہ کے ان عزائم سے اس بات کے خدشات میں اضافہ ہوگیا ہے کہ امریکہ کا اگلا ہدف بنگلہ دیش بھی ہوسکتا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387411 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More