مشرقی تہذیب اور فیشن ڈیزائنرز کی ذمہ داریاں

یوں توحسن اور خوبصورتی کی تخلیق کے معاملےمیں ہر عورت کے اندر ایک فنکار چھپا ہوا ہوتا ہے اورجو خواتین اپنے اندر چھپے فنکار کو موقع دیتی ہیں اور اپنی تخلیقی صلاحتیوں سے کام لیتی ہیں وہ اچھی ڈیزائنر بن جاتی ہیں۔ اچھی ڈیزائنرز وہ ہوتی ہیں جو عام قسم کے ڈیزائن کے کپڑے سے بھی سب سے مختلف اور نئے انداز کے ملبوسات تیار کرسکیں ۔ بہترین ڈیزائنروہ خواتین ہوتی ہیں جو ہر طبقے کی خواتین کی استطاعت کے مطابق ملبوسات ڈیزائن کرتی ہیں۔

پچھلے دنوں ایک میٹنگ میں بات ہو رہی تھی کہ ہم ڈیزائنرز کو چاہئے کہ موسمِ گرما یا موسمِ سرما آنے سے پہلے ایک جگہ بیٹھیں اور طے کر لیں کہ اس سال یہ رنگ استعمال کرنے ہونگے یعنی وہاں تذکرہ ہلکے رنگوں کا تھا جو دھوپ اور گرمی میں آنکھوں کو بھلے لگیں ،مگر مجھے بحیثیت ایک فیشن ڈیزائنر کے یہ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی جس کی وجہ میرے خیال میں یہ ہے کہ اگر ہم سب ڈیزائنرز کل دس یا بارہ رنگوں کو مخصوص کرلیں گے تو مارکیٹ یکسانیت کا شکار ہوجائیگی ۔اسکے علاوہ جو لوگ موسم کی مناسبت کو ذھن میں رکھتے ہیں اور بہتر سوچنے کی صلاحیت اور فرصت رکھنے کے ساتھ ساتھ صاحبِ حیثیت اور سلیقہ شعار بھی ہوتے ہیں ان کے لئے اپنی با ذوق شخصیت کا تاثر قائم رکھنے کے لئے موسم گرما کے 25,30 جو ڑے بنانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی جن میں سےکچھ جوڑے وہ ہلکے رنگوں کے بھی بنا سکتے ہیں جنہیں دوپہر کی گرمی میں پہننا برا نہ لگے ۔ رہا سوال متوسط طبقے کے سفید پوش شرفاء کا تو چاہے وہ چند جوڑے ہی خرید نے کے متحمل ہوں مگر انکو سلیقے قرینے سے سنبھال سنبھال کر رکھتے ہیں خواہ بعد میں فیشن تبدیل ہی کیوں نہ ہو جائے ۔ہمارے یہاں ملبوسات صرف ایک خاص طبقے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈیزائن کئے جاتے ہیں جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ تمام طبقوں کے لیے قدو قامت ، عمر،جسامت ، کمپلکشن ، رنگ و روپ ،سب کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملبوسات ڈیزائن کیے جائیں ۔

رمضان کے مبارک مہینے میں مخیر حضرات بھی اتّباع نبی ﷺ اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی لئے جہاں نقد رقومات سے زکٰوۃ و خیرات کرتے ہیں وہاں اکثر غریبوں اور مستحقین کو لباس وغیرہ تحفے کی صورت میں دیتے ہیں جبکہ دوست اور عزیز ایک دوسرے عیدی کے طور اکثر و بیشتر سوٹ دیتے ہیں ۔ لان میلے بھی جگہ جگہ لگے ہیں ۔ ڈیزائنر لان و دیگر دیدہ زیب ملبوسات بازاروں میں سجے ہوئے ہیں ۔ پر کشش ڈیزائن کے پرنٹس ، دیدہ زیب و دلفریب رنگوں کی آمیزش کے باعث آج کل مہنگے ترین ڈیزائنر سوٹس بھی اچھا بزنس کر رہے ہیں ۔ کچھ سال پہلے 100 روپے میں ایک اچھا سوٹ آجاتا تھا، اب تو بات 5/6 ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔اچھی فیشن ڈیزائنر ز کو ایسے ملبوسات تیار کرنے چاہیءں جو کہ ہر خاص و عام کی پہنچ میں ہوں اورکسی کی بھی جیب پر گراں نہ ہوں۔

تجارت کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے ۔ حضرت محمد ﷺ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہٰ الکبریٰ بھی تاجر تھیں اور آپ ﷺ بھی تجارت کیا کرتے تھے مگر ہمیں چاہئے کہ اپنی مذہبی اقدار، اپنے معاشرے اور روایات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ملبوسات تیار کریں۔جدّت بری چیز نہیں لیکن یہ فراموش نہ کر دینا چاہئے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہم پر شریعت کی طرف سے کچھ حدود وقیود بھی لاگو کی گئی ہیں لہٰذا حد سے زیادہ تجاوز کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ، نہ دنیاوی معاملات میں اور نہ ہی اخروی معاملات میں۔دراصل فیشن کپڑوں سے ہو سکتا ہے کپڑوں کی بغیر نہیں ۔اگر آپ فیشن ڈیزائنرہیں اور بین الا قوامی سطح پر ایکسپورٹ کیلئے کچھ ڈیزائن کر رہے ہیں تو دیگر بات ہے۔مگر ملکی سطح پردہ ملبوسات ڈیزائن کریں جو ہمارے یہاں کا پہناوا ہے اور جسے ہماری اکثریت استعمال کرتی ہے کیونکہ بات ہمیشہ اکثریت کی ہوتی ہے چند لوگ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے ۔ مشرقی لباس غرارہ، شرارہ، ساڑھی ، شلوار قمیض، فراک، کرتہ پاجامہ ،ان سے خوبصورت شاید ہی کوئی مغربی لباس ہو ۔ستر پوشی اور مشرقی تہذیب کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں جدت لائی جا سکتی ہے ۔سن اسّی کی دہائی تک فلموں میں خصوصاً بھارتی فلموں میں جو ہمارے یہاں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں ، ہیروئن اور کیبرے ڈانسر کے لباس میں نمایاں فرق دکھائی دیتا تھا جبکہ آجکل جو فلمیں بن رہی ہیں ان میں اب کیبرے ڈانسر تو کچھ کپڑوں میں دکھائی دیتی ہیں لیکن ہیروئن تو صرف شارٹس میں ہی دیکھی جاتی ہے۔معاف کیجئے شارٹس کا شاید ہی کوئی ترجمہ ہماری زبان اور تہذیب میں ہو ۔ دوسرے لفظوں میں اب نہ صرف مشرقی تہذیب و تمدن کو ختم کر دیا گیا ہے بلکہ بیچاری کییبرے ڈانسرز کا دھندا بھی ختم ہوگیا ہے۔اگراسی قدر اختصار سے کام لیا گیا تو پھر تمام کپڑے والے، فیشن ڈیزائنر اور ٹیکسٹائل ملز والوں کو بھی روزگاری کا سامنا ہوگا۔(اللہ نہ کرے)

رنگ برنگے دلکش ڈیزائن کے پرنٹس اور مہارت سے منفرد انداز میں تیار کردہ ملبوسات آپکی شخصیت کو چار چاند لگادیتے ہیں۔ خصوصاً شادی بیاہ یا رمضان میں روزہ کشائی کی تقریبات کے علاوہ افطار پارٹیوں اور عید ملن پارٹیوں میں باذوق خواتین مرکزنگاہ ہوتی ہیں۔اگر آپ نے ابھی تک عید کی خریداری نہیں کی ہے تو یاد رکھیں کہ عام طور پرگہرے رنگ کی قمیضوں کے ساتھ سفید شلوار اور سفید دوپٹہ بہت خوبصورت لگتا ہے کیونکہ سفید رنگ گہرے رنگ کی شوخی کو نفاست میں تبدیل کردیتا ہے، جس سے اسکا تاثر ٹھنڈا معلوم ہوتا ہے۔اسکے علاوہ عام طو ر پر بلیک کے ساتھ اورنج کلر کا اچھا کمبی نیشن ہوتا ہے اور اس پر اگر ایمبرائیڈری کا کام بھی ہو تو سونے پر سہاگہ۔ دیگر بہت سے کمبینشن بھی اپنی اپنی پسند کی مطابق منتخب کئے جاسکتے ہیں۔سادہ یا پرسٹڈ لان پر لیس یا ربن لگی ہوئی فراک یا قمیض ، مختلف انداز کے پاجاموں یا فلیپرز کے ساتھ پہنی جائے توبہت خوبصورت لگتی ہیں۔ اگر آپ کے مالی وسائل زیادہ نہ ہوں توعید کے لئے ایسی ڈیزائنرز کے تیار کردہ ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دیں جو بے شک زیادہ معروف نہ ہوں مگر با صلاحیت ہوں اور ان کی تخلیق ان کی جدت طرازی اور دلکشی کی شہادت دیتی نظر آئے ۔ جب ایک مرتبہ آپ کسی ڈیزائنر کی تخلیقات کے حسن کی قائل ہوجائیں گی تو پھر آپکو بار بار ڈیزائنرز کے انتخاب کی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی اور آپ کا بہت سا قیمتی وقت بچ سکے گا۔

Hafsa Zahid
About the Author: Hafsa Zahid Read More Articles by Hafsa Zahid: 3 Articles with 2675 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.