اردو کا مستقبل

اردو کا اگر کوئی مستقبل ہے تو وہ ہمارے ہاتھوں میں ہے ،تین ہزار سالوں تک دنیا میں مارے مارے پھرنے کے با وجود یہودیوں نے اپنی زبان کو فراموش نہیں کیا اور اسے نسل در نسل منتقل کرتے رہے ،حالات کیسے بھی رہے ہوں،یہودیوں نے اپنے بچوں کو اپنی زبان میں تعلیم دی اور بھی قومیں ہیں جو بین الاقوامی سطح پر انگریزی کے مسلط کئے جانے کے باوجود اپنی زبان کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہی ہے ،ایسے میں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آخر ہم خود کیوں نہ اپنی زبان کی حفاظت کا بیڑھ اٹھالیں ۔آج کل اردو کا رونا ہر سمینار اور پروگرام میں رویا جاتا ہے لیکن کبھی ہم نے غور کیا کہ جو لوگ وہاں اردو کی زبو حالی پر لیکچر دے رہے ہیں کیا ان اپنے بچے اردو زبان جانتے ہیں ؟اگر معلوم کریں گے تو معلوم ہو گا کہ خود ان کے اپنے بچے بھی اردو زبان سے نا بلد ہیں اور تو اور وہ خود نہیں چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اردو زبان میں مہارت حاصل کرے ۔کچھ کو چھوڑ کر الا ماشا اﷲ ہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اردو زبان کی حفاظت کی ہے ان میں بڑی تعدار اردو صحافیوں کی ہے ۔اکثر اردو کے صحافی اپنے بچوں کو اردو زبان کی نا صرف تعلیم دیتے ہیں بلکہ انہیں اردو زبان ہی میں بی اے ایم اے اور بی ایڈ وغیرہ کراتے ہیں اور ان کے بچے کامیاب بھی ہیں ۔اردو ادیب اور صحافیوں میں یہ بڑا فرق معلوم ہوتا ہے ۔اگر اردو کے پروفیسر یا ٹیچر ہیں تو وہ اپنے بچوں کو انگریزی ذریعہ تعلیم کے ساتھ دیگر کورسس کراتے ہیں اور ان کے بچے زبان اردو سے بھی نا واقف ہوتے ہیں لیکن اردو صحافیوں کے اندر یہ بات قابل ذکر ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نا صرف ذریعہ تعلیم اردو میں کراتے ہیں بلکہ انہیں وہ اردو میں ماہر بھی بناتے ہیں ۔یہ تجزیہ بتاتا ہے کہ جنتی محب اردو صحافیوں کو اپنی زبان سے ہے اتنی محبت کاش پروفیسر حضرات کو بھی ہو جائے تو اردو زبان ترقی کے منازل طے کرے گی ۔خود ہمارے معاشرے میں کچھ ایسی مثالیں مل جائیں گی جس کو دیکھ کر سر پیٹ لینے کا جی چاہتا ہے ۔ابو الفضل انکلیو ای بلاک میں ایک مسجد ہے جس نام بورڈ ہندی میں لکھا ہے چاند مسجد ۔حیرت اس بات کی ہے کہ انہیں کس نے روکا ہے اردو میں لکھنے سے یہ علاقہ تو اردو داں طبقے کے لئے مشہور ہے ۔اسی طرف تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیجئے ایٹل کمپنی نے جگہ جگہ جامعہ نگر علاقے کے درودیوار پر اپنا ایڈ پینٹ کرایا ہے جس میں لکھا ہے ’فی کال ‘کمپنیوں کو معلوم ہے کہ یہ علاقہ اردو داں حلقہ ہے اس لئے اس نے اردو میں اشتہارات لکھوایا ہے لیکن ہماری مرعوبیت کا حال یہ ہے کہ ہم مسجد تک کے ناموں کو ہندی میں لکھ رہے ہیں ۔اسی طرح بہت سی مسجد کمیٹی کا لیٹر پیڈ بھی ہندی میں ہوتا ہے اور میٹنگ وغیرہ کے لئے بھی وہ ہندی کا سہارا لیتے ہیں ۔جب کہ آج انٹر نیٹ ،گوگل ،یو ٹوب،فیس فک وغیرہ میں با ضابطہ اردو شامل ہے ۔اس کے علاوہ جتنے بڑے بینک ہیں آئی سی آئی سی سے لیکر ایچ ڈی ایف سی وغیرہ میں اردو کا آفشن بھی موجود ہے ۔یہاں تک کہ ایرٹل سے لیکر ریلائنس تک کے کسٹمر کیئر سے بات کرنے کیلئے ہندی ،انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی زبان اختیار کرنے کا آفشن موجود ہے اور اردو چاہنے پر وہ اردو زبان میں ہی خدمات انجام دیتے ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلم دکانوں کے شائن بورڈ اردو میں لکھے جاتے بینک سے لیکر تمام کارروائی میں اپنا دستخط اردو میں کئے جاتے دستخط میں نام ظاہر نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ علامت کے طور پر کیا جاتا ہے تو کیوں نہ اردو داں حلقہ دستخط اردو میں کریں ۔اگر اردو داں حلقہ اپنا ہر کام اردو میں کرنے لگے تو وہ وقت قریب نہیں کہ دیگر زبان کی طرح اردو کو بھی دیگر لوگ نا صرف پڑھنا شروع کریں بلکہ اسے بخوشی اختیار کر لگے گیں ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان کو مزید وسیع کرنے کی کوشش کی جائے اور اپنے اپنے حلقہ میں اردو کو فروغ دینے کے لئے روز مرہ کے تمام کام اردو میں کی جائے ۔آج اردو کسی کی محتاج نہیں ہے بلکہ اردو خود ترقی کر رہی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اسے دیگر زبانوں کی طرح شامل کر رہی ہے ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ جب آپ بینک میں جائیں اور اردو زبان دیکھ کر بھی آپ اردو زبان لکھنے کے محتاج نہ ہوں اگر ایسا ہوگا تو ضمیر ملامت کریگا اور آپ اپنے آپ کو اس کا قصور وار تصور کریں گے ۔قبل اس کے اردو تمام جگہ پر چھا جائے اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم ضرور دیں ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 103093 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.