دفاعی بجٹ اور ملکی دفاع

بجٹ 2010-2011 پیش کر دیا گیا اور اسکی تمام تفصیلات بھی عوام کے سامنے آچکی ہیں ہمیشہ کی طرح نئے ٹیکس اور کچھ ریلیف بہرحال مہنگائی میں دبے ہوئے عوام مزید مہنگائی کے خوف میں مبتلا سوچتے ہیں کہ یہ سال کیسے گزرے گا اور مزید کتنے منی بجٹ آئیں گے۔ لیکن بجٹ کا ایک حصہ ایسا بھی ہوتا ہے جو ہر سال موضوع بحث ضرور بنتا ہے اور بجا بنتا ہے اور وہ ہے دفاعی بجٹ۔ بجا موضوع بحث بننے کی وجہ یہ ہے کہ عوام بجا طور پر توقع کرتے ہیں کہ بجٹ میں ترقیاتی کاموں اور ریلیف پر زیادہ توجہ دی جائے لیکن اسے پاکستان کی بدقسمتی کہیے کہ اسکے پڑوس میں ایک ایسا شر پسند پڑوسی موجود ہے جس کے شر سے یوں تو اسکا کوئی پڑوسی بلکہ اس کے اپنے باشندے بھی محفوظ نہیں لیکن پاکستان تو خاص کر اس کے نشانے پر رہتا ہے کیونکہ پاکستان کو تو اس نے روز اول سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ بھارت کو ایک اور خبط یہ بھی ہے کہ اسے علاقے کا چوہدری مان لیا جائے اور باقی ممالک اسکی من مانیوں کے آگے چپ رہیں اور سر تسلیم خم کرتے رہیں اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنی دفاعی طاقت کو مستقل بڑھائے چلا جا رہا ہے جس کے لیے اسے اسلام اور مسلمان مخالف دنیا کا مسلسل تعاون بھی حاصل ہے۔ اب تو علاقائی طاقت سے آگے بڑھ کر وہ عالمی طاقتوں میں جا کھڑا ہونے کی کو شش میں مصروف ہے اور بظاہر عالم اسلام سے بہتر تعلقات کی منہ زبانی باتیں کرنے والا امریکی صدر اسلام کے ایک اور دشمن کو ابھرتی ہوئی عالمی طاقت قرار دیتا ہے اور ہیلری تو صاف صاف اسے سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کی حمایت کر رہی ہے۔ اب جبکہ پاکستان کے تمام تجزیہ کار ان ساری تفصیلات سے بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی وہ دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنے پر خفا اور ناراض ہیں۔ مجھے بھی اس بات سے اتفاق ہے کہ صحت اور تعلیم، خوراک اور رہائش ہر شہری کا بنیادی حق ہے لیکن حفاظت کا انتظام بھی یقیناً انتہائی ضروری ہے پاکستان کے وفاقی بجٹ میں دفاع کا حصہ442.173 ارب روپے رکھا گیا جواعداد و شمار کے لحاظ سے پچھلے سال سے 5 فیصد زیادہ ہے۔ اور افراط زر کی شرح جو پچھلے سال 12 فیصد رہی اس سال بھی رہی تو اضافے کی یہ اوسط بھی نہیں رہے گی۔ پاکستانی دفاعی بجٹ کے مقابلے میں اگر بھارتی دفاعی بجٹ کو دیکھا جائے تو فروری میں پیش ہونے والے بجٹ میں دفاع کی مد میں 1.47 ٹریلین روپے یعنی 32 ارب ڈالر رکھے گئے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس سب تیاری کا بڑا حصہ پاکستان کے خلاف ہوتا ہے ایک سال پر کیا موقوف بھارت کے عزائم تو ہمیشہ غاصبانہ رہے ہیں اگر پچھلے 5 سال کے اعداد وشمار کا جائزہ لیا جائے تو بھی پاکستان کا دفاعی بجٹ بھارت کے دفاعی بجٹ کے مقابلے میں انتہائی کم بلکہ نہ ہو نے کے برابر ہے یہ اعدا و شمار کچھ اسطرح سے ہیں سال 2003-04 میں بھارت کا بجٹ 14 ارب ڈالر جبکہ پاکستان کا 2.75 ارب ڈالر رہا۔ سال 2004-05 میں بھارت کا بجٹ 16.73جبکہ پاکستان کا3.3، سال 2005-06 میں یہ تناسب بھارت اور پاکستان کے لیے بالترتیب18.04 اور 4.1 ، 2006-07 میں 19.77اور 4.2، سال 2007-08 میں 21.33 اور 4.6 ، سال2008-09 میں 26.4 اور 4.35 ارب ڈالر رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ بھارت بڑا ملک ہے تو اس کے لیے عرض یہ ہے کہ بھارت بڑا ملک ضرور ہے لیکن اسکے جنگی تیاری کا نوے پچانوے فیصد حصہ پاکستان کے خلاف ہوتا ہے۔ اب اگر پاکستان اپنے دفاع سے غافل ہو جائے یا سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق دفاعی بجٹ کو کم سے کم رکھے تو کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ بھارت بھی ایسا کر لے گا اور پاکستان کے خلاف اپنے مکروہ عزائم ترک کر دیگا۔ جبکہ پاکستان کو نہ صرف مشرقی سرحد پر بھارت سے مقابلہ کرنا ہے بلکہ ملک کے اندر بھی بھارت کی لگائی ہوئی آگ کو بجھانا ہے جسکی دہشت گردی اور مداخلت کے یقینی ثبوت سوات، بلو چستان اور افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں مل چکے ہیں دہشتگردی کے خلاف پرائی جنگ جو ہمارے ملک میں بھڑک چکی ہے جس کی وجہ سے پاکستان پر دہشت گرد ہونے کا لیبل چسپاں کیا جا رہا ہے دراصل بھارت کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں بھارت کے دفاعی بجٹ سے متوقع بلکہ یقینی طور پر اس مد میں بھی بہت کچھ خرچ کیا جارہا ہے۔ اب اگر مد مقابل کی طاقت کا یہ عالم ہو اور ہم اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پڑے رہیں تو کیا خود ہم اپنی شکست کا بندوبست نہیں کرینگے۔

جنوبی ایشیا دنیا کے انتہائی آبادی والے علاقے میں سے ہے یہاں کی زیادہ تر آبادی غریب ہے یقیناً اسلحے سے زیادہ انکی ضروریات دوسری ہیں لیکن ان سب حالات کو نظر انداز کر کے بھارت نے اسلحے کی دوڑ لگا رکھی ہے اور دنیا میں اسلحے کا دوسرا بڑا درآمد کنندہ ہے اور مسلسل اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔GDPاورGNP جیسے پیچیدہ مسائل میں پڑے بغیر ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا دشمن ہمیں نقصان پہنچانے کی کتنی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور ہم اپنا کتنا دفاع کر سکتے ہیں جسطرح گھر کو محفوظ بنانے کے لیے ہم گھر کی چاردیواری کو مضبوط بناتے ہیں کمروں کی دیواروں کی بنیادیں خرچے کا خیال کیے بغیر گہری کھودتے ہیں چاہے گھر کے اندر سامان ضرورت ہو یا نہ ہو اسکی تزئین وآرائش تو بہت بعد کی بات ہے۔ بالکل اسی طرح ملک کی حفاظت بھی اپنے قومی وجود اور بقا کے لیے ضروری ہے ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ دفاعی سازوسامان مہنگا بھی ہے اور ہم اس میں خود کفیل بھی نہیں بلکہ تقریباً مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کرتے ہیں تو زیادہ دفاعی بجٹ کی گولی کڑوی سہی زندگی بچانے کے لیے نگلنا پڑے گی اور دنیا سے یہ بات منوانا پڑے گی کہ وہ بھارت کو مجبور کرے کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات کم کرے تاکہ اس کے پڑوسیوں کو بھی اپنے عوام کا پیٹ نہ کاٹنا پڑے جب تک بھارت اپنے مقاصد بدل کر درست نہیں کرتا تب تک خطے کے حالات میں تبدیلی ممکن نہیں۔

رہی بات پاکستان میں صحت، تعلیم، خوراک جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی تو حکومت کو غیر اہم غیر ترقیاتی اخراجات انتہائی کم کرنا ہونگے۔ تعیش پسندی کی جگہ سادگی کو دینی ہوگی اور اسکی ابتدا حکومتی سطح پر کرنا ہوگی تو ہمارے بہت سے مسائل کم اور وسائل زیادہ ہو سکتے ہیں تب دفاعی اخراجات میں کمی کے غیر دانشمدانہ مطالبات بھی نہ کرنا پڑیں گے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک غریب ملک ہو کر دفاع پر اتنا کیوں خرچ کرتے ہیں تو انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غریب بھی گھر کے گرد دیواریں بناتا ہے تاکہ حفاظت کا بندوبست مکمل رہے لہٰذا ہمیں تنقید کرنے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ جب بھی دشمن کو ہمارے دفاعی نظام میں کوئی رخنہ نظر آیا وہ ہم پر حملہ کرنے میں ایک لمحہ نہیں لگائے گا اور جب تک ہم مضبوط رہیں گے وہ ہماری طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرات نہیں کرے گا۔
Naghma Habib
About the Author: Naghma Habib Read More Articles by Naghma Habib: 514 Articles with 513602 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.