قصہ واش روم کا ․․!

 ملک اقبال چنڑ امداد باہمی کے صوبائی وزیر ہیں، ان کا تعلق بہاول پور سے ہے، وہ مسلسل تیسری مرتبہ الیکشن میں کامیابی سمیٹ چکے ہیں۔ ان کا شمار مسلم لیگ کے ان لوگوں میں ہوتا ہے، جو میاں برادران کی جلاوطنی کے دور میں بھی ان کے وفادار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں نہ صرف صوبائی وزارت سے نوازا جاتا ہے، بلکہ وہ الیکشن کے زمانے میں پارٹی سے امیدواروں کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کا بھی حصہ ہوتے ہیں۔ مقامی طور پر ان کی بہت سی برادری بھی موجود ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے کسی کام کے سلسلہ میں اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹرقیصر مشتاق سے ملاقات کے لئے رابطہ کیا، معلوم ہوا کہ رئیس الجامعہ وفاقی دارالحکومت گئے ہوئے ہیں، واپسی پر ملاقات کا وقت طے ہوگیا۔ مقررہ وقت پر وزیر موصوف وائس چانسلر کے دفتر پہنچے تو ان کی کرسی خالی تھی، معلوم ہوا کہ وہ واش روم میں ہیں۔ ملک اقبال نے انتظار کیا، سیکنڈ منٹوں میں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہونے لگے، تشویش میں بھی اسی رفتار سے اضافہ ہونے لگا۔ جب معاملہ طول پکڑ گیا تو وزیر صاحب نے 15پر اطلاع کروائی، تاکہ واش روم کا دروازہ کھولنے اور رئیس الجامعہ کو باہر نکالنے کی سبیل کی جائے۔ چونکہ معاملہ بہت ہی بڑے گریڈ کی حامل شخصیت کا تھا اس لئے پولیس کے بھی نسبتاً بہتر گریڈ والے افسر آگئے، مگر دروازہ نہ کھلا۔ اس دوران یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کے ہیڈز بھی وہاں موجود تھے۔ تشویش کی لہر تو مسلسل قائم رہی، تاہم دروازہ بزور بازو کھولنے کی منصوبہ بندی نہ ہوسکی۔

اس دوران صوبائی وزیر بھی وائس چانسلر کے دفتر میں ہی ان کے واش روم سے نکلنے کا انتظار کرتے رہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے حالات کی طوالت اور کسی حد تک کشیدگی کے پیش نظر ماحول کا رنگ بدلنے کے لئے نئی منصوبہ بندی کی اور وزیر کو اطلاع دی کہ وائس چانسلر صاحب بغداد الجدید (شہر سے باہر یونیورسٹی کے بڑے کیمپس) چلے گئے ہیں۔یہ یونیورسٹی انتظامیہ کی اپنے سربراہ کی مشاورت کے بغیر ایک نہایت ہی مضحکہ خیز دلیل تھی، ملک صاحب وکیل بھی ہیں، دل ہی دل میں اس دلیل پر حیرت زدہ بھی ہوئے ہونگے۔ تاہم انہوں نے مزید کچھ دیر وائس چانسلر کے واش روم سے نکل آنے کا انتظار کیا اور ملاقات سے محرومی کا غم دل میں بسائے اور ہزار وسوسے آنکھوں میں سجائے گھر چلے گئے۔مصدقہ اطلاع کے مطابق وائس چانسلر مزید کچھ تاخیر کے بعد واش روم سے برآمد ہوگئے۔ ان کی واش روم میں موجودگی کا دورانیہ تین گھنٹوں سے زیادہ وقت پر محیط تھا۔ اس بات کی تحقیق و تصدیق نہیں ہوسکی، کہ وہ تنہا ہی برآمد ہوئے یا ان کے ساتھ کوئی اور بھی ان کی تنہائی کو دور کرنے کے لئے موجود تھا، تاہم یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ وہ میتھ کے مانے ہوئے استاد ہیں، نہ جانے تنہائی سے فائدہ اٹھا کر کوئی مسئلہ ہی حل کرنے بیٹھ گئے ہوں، یا کوئی نیا فارمولا ہی ایجاد کر رہے ہوں؟ یہ بات اگرچہ کچھ احباب مذاق سمجھتے ہیں یا کچھ لوگ مذاق میں یہی بات کہہ دیتے ہیں، مگر اس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے، بہت سے تخیلات کو اُس ’روم ‘میں جِلا ملتی ہے اور ذہن میں نئے تصورات سر اٹھانے لگتے ہیں۔

یونیورسٹی انتظامیہ اپنا موقف آہستہ آہستہ ہی دے گی، تاہم کہا گیا ہے ملک اقبال نے کسی بات پر وائس چانسلر پر دباؤ ڈالا، انکار پر سیکڑوں کارکن اکٹھے کر لئے اور دفتر پر دھاوا بول دیا۔ بہت سی باتیں اور بھی سامنے آرہی ہیں تاہم تصدیق شدہ نہیں۔ قبل ازیں بھی وائس چانسلر نے بہاول پور کے لوگوں کا تقریباً سماجی مقاطعہ ہی کررکھا ہے، وہ نہ کسی سے ملتے ہیں اور نہ ہی اس قسم کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، ایک صوبائی وزیر کو لفٹ کروانے کا احوال قارئین نے جان لیا، ویسے تو اپنے وزراء وغیرہ میں بھی اتنا ہی دم ہے کہ افسر یا اداروں کے سربراہ ملاقات کا وقت دیں یا نہ انہی کی مرضی۔ان منتخب نمائندوں اور بعد ازاں وزیر بن جانے والوں کی عزت افزائی کرنے والے افسروں وغیرہ کے پیچھے آخر کس کا ہاتھ ہوتا ہے؟ اسلامیہ یونیورسٹی کے وی سی آفس میں ہونے والے اس افسوسناک ڈرامے میں آخر کس کی سُبکی ہوئی، کون بے عزت ہوا؟ گزشتہ دنوں یونیورسٹی نے کانووکیشن کیا تھا، مگر نہ مہمان (چانسلر یونیورسٹی ، گورنر) نے آنا مناسب جانا اور نہ ہی میڈل موجود تھے۔ اگر وائس چانسلر میں انتظامی صلاحیت نہیں ہے تو انہیں تدریس کے کام پر لگا دیا جائے تو بہتر ہے، تاکہ ایک جامعہ تباہی سے محفوظ رہ سکے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428686 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.