مردم شماری میں تاخیر.... ملکی ترقی میں حکومتی عدم دلچسپی کا مظہر!

مشترکہ مفادات کونسل نے ملک میں چھٹی مردم شماری کا انعقاد اتفاق رائے سے ایک بار پھر موخر کر دیا ہے۔ سیکرٹری شماریات ڈویژن کی جانب سے اجلاس کو بتایا گیا کہ ملک کو ایک لاکھ 66 ہزار 819 بلاکس میں تقسیم کیا گیا ہے، جس کے لیے دو لاکھ دس ہزار 239 ہیڈز کی ضرورت ہے، چونکہ پاکستان کی مسلح افواج جاری آپریشنز ضرب عضب میں مصروف ہیں، اس لیے مارچ یا اپریل میں ایک ہی دن پورے ملک میں فوجی اہلکاروں کی تعیناتی ممکن نہیں۔ علاوہ ازیں سرکاری اسکولوں میں سالانہ امتحانات کے سبب اساتذہ کی مطلوبہ تعداد بھی دستیاب نہیں، جبکہ افغان مہاجرین کی رجسٹریشن کا عمل بھی مکمل نہیں۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے پہلے ہی یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ وفاقی حکومت مردم شماری کو موخر کرنا چاہتی ہے۔ حکومت نے مردم شماری کو موخر کرنے کا اعلان کر کے سیاسی جماعتوں کے خدشے کو حقیقت میں بدل دیا ہے۔ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کی جانب سے مختلف ادوار میں ملک بھر میں مردم شماری جلد از جلد کرانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ مردم شماری سندھ کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، جبکہ خیبرپختونخوا حکومت نے بھی وفاق سے مردم شماری کرانے کا مطالبہ کرایا تھا، لیکن وفاقی حکومت تاحال صوبوں کے مطالبے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے۔ وفاق کی جانب سے تمام صوبوں میں وسائل و محاصل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور آبادی مردم شماری کے بعد ہی معلوم ہوتی ہے، اس لیے چھوٹے صوبوں کی جانب سے مردم شماری کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ وفاق مردم شماری نہ کراکے ہمیں حق سے محروم کرنا چاہتا ہے۔ مردم شماری موخر کرنے کے حکومتی فیصلے کو تقریباً تمام چھوٹے صوبوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ صوبہ سندھ اور کے پی کے کے سیاسی رہنماﺅںنے ملک میں مردم شماری کے فیصلہ کو موخر کرنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردم شماری وقت کی اہم ضرورت ہے۔اس میں مزیدحیلے بہانے اور تاخیرکسی صورت قابل قبول نہیں۔ ترجیحی بنیادوں پر مردم شماری کے لیے فوری تاریخ مقرر کی جائے، تاکہ چھوٹے صوبوں اور قومیتوں میں پائی جانے والی احساس محرومی، بے چینی اور شکوک و شبہات کا خاتمہ کیا جاسکے۔ گزشتہ اور موجودہ وفاقی حکومتوں نے ملک میں صحیح مردم شماری کرانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی اور ہمیشہ اس اہم مسئلے کوطول دے کروسائل کی تقسیم ،چھوٹی قومیتوں اور صوبوں کے حقوق کے حصول کی راہ میں روڑے اٹکائے۔

حکومت نے مردم شماری کو موخر کرنے کے لیے جو وجوہ بیان کی ہیں، ان سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ تمام وجوہ اس وقت بھی موجود تھیں، جب ملک میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حکومت کو پہلے دیکھنا چاہیے تھا کہ ملک فلاں فلاں مسائل کا شکار ہے، اس لیے ان حالات میں مردم شماری نہیں کی جاسکتی۔ حکومت کا پہلے مردم شماری کرانے کا اعلان کرنا اور بعد میں موخر کردینا سمجھ سے بالاتر ہے۔حکومتی کی غیرسنجیدگی کا اندازہ شماریات ڈویژن کے وفاقی سیکرٹری کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ مردم شماری کب ہو گی؟ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ممکن ہے آئندہ دو تین سال تک مردم شماری نہ ہو سکے۔اس بیان سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت مردم شماری کے معاملے کو بھی برسوں کے لیے لٹکائے رکھنے کا ارادہ کر رہی ہے۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ ملکی ترقی کے لیے ناگزیر اہمیت و افادیت کے حامل اور قومی ترقی کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھنے والے اس اہم ترین معاملے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئین پاکستان میں ہر 10 سال بعد مردم شماری کے عمل کو ضروری قرار دیا گیا ہے، لیکن ملک میں قیام پاکستان سے اب تک صرف 5 بار ہی مردم شماری کرا ئی جاسکی ہے۔ پہلی مردم شماری 1951، پھر بالترتیب 1961، 1972، 1981 اور آخری بار 1998 میں ہوئی۔

قومی مردم شماری و خانہ شماری کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی اور ذمہ دار لوگوں کی نااہلی ہے کہ ان کو یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ 18سال کے عرصے میں پاکستان کی آبادی کتنی بڑھ چکی ہے۔ زندگی کے کن کن شعبوں میں عوام کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے کیا ضرورتیں ہیں؟ کون سے شعبے میں زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے؟ ملک کے کس حصے میں عوام کے علاج معالجے کے لیے کس تعداد میں ہسپتالوں کی ضرورت ہے؟ اور عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے کتنے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے؟ عوام کو حاصل بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا دارومدار آبادی کے درست اعداد و شمار پر ہوتا ہے۔ مردم شماری صرف آبادی کو معلوم کرلینے کا نام نہیں بلکہ مردم شماری کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ملک کی ضروریات کیا ہیں، ملک کو کن کن مسائل کا سامنا ہے، ملک کی آبادی میں کمی یا اضافہ کتنا ہوا ہے، ملک کی اکثریتی آبادی کا تعلق کس نسل یا زبان سے ہے، کتنے فیصد طبقہ تعلیم یافتہ ہے اور کتنا نہیں، خواندگی کی شرح کیا ہے؟ مردم شماری کے نتیجے میں ملک کی کل آبادی، مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد، شرح نمو، شرح اموات، حاملہ خواتین کی تعداد، ملک کے اندرونی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد اور شرح، بیرون ملک کام کرنے والوں کی تعداد، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی تعداد، گھروں کی تعداد، زراعت، صنعت یا ذاتی کاروبار سے منسلک افراد کی تعداد، پرائمری اور میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد، اسکول جانے اور نہ جانے والوں کی تعداد، کالج اور یونیورسٹیوں میں جانے والون کی تعداد، اساتذہ کی تعداد، ذریعہ آمدن، ڈاکٹروں، نرسوں اور دائیوں کی تعداد، گھروں میں مواصلاتی سہولیات اور دیگر بہت سی معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکتا جب تک اس کو ملک کی آبادی کے اعداد و شمار درست طور پر معلوم نہ ہوں۔

مردم شماری کے تحت ملکی آبادی کا تعین ہی وہ بنیادی عمل ہے جس کے ذریعے معاشرے کے مسائل کی نشاندہی بہتر انداز میں کرکے انہیں حل کرنے کے لیے حکمت عملی مرتب کی جاسکتی ہے۔ مردم شماری کے تحت حاصل ہونے والے مواد اور اعداد و شمار کے ذریعے محققین اور تجزیہ نگار معاشرے میں مختلف امور پر معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کے ختم یا پیدا ہونے والے رحجان کی نشاندہی کرتے ہیں اور مسائل کا حل پیش کرتے ہیں۔ پھر اس مواد اور اعداد و شمار کے ذریعے مختلف علاقوں اور یونٹس کے عوام کے طرز زندگی کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور انہیں بہتر انداز سے جانچ سکتے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر یونٹس اور صوبوں میں قومی وسائل کی تقسیم کا حصہ طے کیا جاتا ہے اور آبادی کے تناسب سے وسائل کی منصفانہ تقسیم شفاف انداز سے کرنے میں مردم شماری کے اعداد و شمار معاون اور کار آمد ہوتے ہیں۔ اسی طرح مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پر ملک کے پالیسی ساز مختلف شعبوں میں پالیسیاں بہتر انداز سے بنا سکتے ہیں اور حکومتیں اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہیں۔ پاکستان کی آبادی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھ رہی ہے، لیکن پاکستانیوں کو سرے سے اپنی آبادی کا علم ہی نہیں ہے۔ آخری بار 1998ءمیں کی گئی مردم شماری کی بنیاد پر قومی و صوبائی حلقہ بندیاں ترتیب دی گئی ہیں، حالانکہ گزشتہ دو دہائیوں سے شہری آبادی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ 1998ءکی مردم شماری کو اٹھارہ سال ہو چکے ہیں، چھٹی مردم شماری 2008 میں ہونا تھی، مگر اس وقت کی پیپلز پارٹی کی حکومت نے مردم شماری کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ موجودہ نواز حکومت کی جانب سے مشترکہ مفادات کونسل میں چاروں صوبوں کی رائے سے مارچ 2016ءمیں ملک کی چھٹی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، لیکن مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) نے ملک میں چھٹی مردم شماری موخر کردی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک اپنی آبادی کے اعداد و شمار کے درست اعداد و شمار کو جانے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ حکومت کو مردم شماری کی حساسیت اور سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوراً ملک میں مردم شماری کرانی چاہیے۔ اگر ایک ہی بار میں یہ ممکن نہ ہو تو اسے مرحلہ وار بھی کروایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے ایک صوبے میں اور بعدازاں دوسرے صوبوں میں مردم شماری کرا لی جائے اور ایک ہی صوبے کے مختلف حصوں میں مرحلہ وار بھی مردم شماری کرائی جاسکتی ہے۔بہر حال مردم شماری کا معاملہ موخر یا ملتوی ہرگز نہیں کیا جانا چاہیے۔
 
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.