نظام تعلیم انتہائی نگہداشت کا متقاضی

 حدیث نبوی ﷺ ہے ِعلم حاصل کرو ماں کی گود سے گور تک آ قا ے دو جہاں کے فرمان کے مطا بق حصول علم کی اہمیت واضع ہے تا ریخ گواہ ہے کہ وہ اقوام جو علم کے میدان میں آگے رہیں درا اصل انہو ں نے ہی کامیابی کا راز پایا وہ راز جوانسان کو شعور سے آشنا کردیتا ہے۔آگہی کے در کھول دیتا ہے اور انسان اس آگہی کی رو شنی میں نہ صرف خالق حقیقی کو پہچا نتا ہے بلکہ چاند تک پہنچ جاتا ہے ہوایٔ جہاز،آلات جرراہی،فون،بلب،ریڈیم،اور پہیہ کا موجد بنتا ہے۔مگر یہ سب علم اور آگہی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔
 
مملکت خدا داد اپنے قیام سے اب تک تعلیم کے فروٖغ میں کامیاب نہیں رہی ہماری بد نصیبی ہے کہ حکمران اس شعبے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں شعبہ تعلیم و صحت کسی بھی مملکت کی ریڑھ کی ھڈی کی حیثت رکھتے ہیں۔مغربی دنیا اس راز کو بہت پہلے جان چکی تھی اسی لیے انہوں نے اپنی اس زریعے سے معیشت کو مظبو ط بنا یا ۔ مغربی دنیا اسلام کے رہنما اصولوں کو سمجھ چکی ہے اور ان پر عمل کر کے ترقی کی راہ پر گامزان ہے۔
"Education is the most powerful weapon wich u can use to change the world"
(Nelson Mandela) نیلسن منڈیلا تعلیم کو طاقتور ہتھیار کہتا ھے ۔
"If you're plan is for one year plant rice,if you're plan is for ten years grow sugarcane if you're plan is hundred years educate children"
(Confucious)

ہمارے حکمران ابھی اس راز سے واقف نہیں محسوس یہ ہوتا ہے واقف ہونا بھی نہیں چاہتے پا کستان با لخصوص سندھ میں نظام تعلیم کو انتہایٔ نگہداشت کی ضرو رت ہے۔کنفیو شس سے کسی نے پوچھا کہ ملک کی ترقی کے لیے کیا حکمت عملی اپنایٔ جاے اس نے جواب مین کہا ــــــ،،ایک سال کی پلاننگ کے لیے چاول اگاؤ پانچ سے دس سال کی پلاننگ کرنا چاہتے ہو تو گنا اگاؤ اگر سو سال کی پلاننگ کرنا چاہتے ہو تواپنے بچوں کو تعلیم دو،،۔اقوام عالم نے تعلیم کے شعبے پر خاص توجہ دی ہے با لخصو ص ایلیمنٹری ایجو کیشن پریعنی پہلی جماعت سے پ پہلے مو نٹسو ری۔نرسری کے نظام کو بہتر بنایا ہے اور اسی کے ذریعے شعبہ تعلیم میں انقلاب لائے۔ان کے مطابق بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی زہنی نشو نما اور اسکی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔جبکہ ہمارے یہاں اس بات کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی سر کا ری اسکول مین تعلیم کا آغاز پیہلی جماعت سے ہوتا ھے۔گذشتہ دنوں پنجاب حکومت نے ایک اچھی روایت ڈالی اور انہوں نے سرکاری اسکول میں مو نٹسوری جما عت کا آغاز کیا پنجاب حکومت نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ ترقی بنا تعلیم ممکین نہں سندھ حکومت کی توجہ تعلیم کے شعبے پر ہے ہی نہیں جبکہ اب انہیں کواب غفلت سے جاگنا چا ہئیے اور سندھ میں بھی سرکاری سطح پرمونٹسوری۔نرسری سسٹم کا آغاز کرنا چاہیئے۔

غور کیا جا ئے تو سیاسی جماعتیں بھی اپنا کردار صیح طور پر انجام نہیں دے رہیں تقریبا تمام جماعتوں مین مختلف ونگ ہو تے ہیں لیبر ونگ،خواتین ونگ،وغیرہ مگر کسی جماعت کو بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایجو کیشن ونگ بھی بنا لیں محسوس یہ ہو تا ہے قوم کے بچوں سے کسی کو دلچسی نہیں لگتا ہے حکمران خوف زدہ ہیں کہ اگر قوم کے بچے لکھ پڑھ گئے تو ان کی اوطاقوں میں کون خدمت گار ہوگا انکے کھیت کون آباد کرے گاشاید یہ خیال انہیں روکتا ہو غلامانہ اور غلام بنائے رکھنے کی سوچ ہماری ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکا وٹ ہے۔سیاسی شخصیات کو آگے آنا ہو گا اور اپنا کردار ادا کرنا ہو گااسمبلی میں بار بار تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہو گا۔
 
نظام تعلیم کے تنذلی کی ایک اور بڑی وجہ روایاتی نصاب ہے۔گذشتہ کئی دہائیوں سے وہ ہی نصاب پڑھا یا جا رہا ہے۔ وہی سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب سرکاری اسکولوں کے نصاب میں شامل ہیں جسے اپ دیٹ ہی نہیں کیا گیامیرے استاد جو کتاب مجھے دکھا کر کہتے تھے کہ یہ کتاب میں نے پڑھی ہے آج سالوں بعد میں وہی کتاب اپنے طالب علم کو دکھا کر کہتا ہوں یہ کتاب میں نے بھی پڑھی ھے آج جب لوگ ترقی کرکے چاند پر پہچ گیئے اور اب دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار ڈہو نڈ رہے ہیں ہم راموں کی گائے،کے قصے ہی پڑہا رہے ہیں۔پاکستان کے چار صوبے یہ پڑہا رہے ہیں جبکہ اب گلگت بلتستان بھی صوبہ ہے پشاور کے پی کے میں تبدیل ہو چکا ھے مگر یہاں وہی رٹا فیکیشن چل رہی ھے۔نصاب کو آپ ڈیٹ کیا جانا چاہئے۔ دنیا میں کتا بوں کے بجائے ٹیبلیٹ کے ذریعے تعلیم دی جا رہی ہے ہم ابھی تک روایتی طریقوں کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔درسی کتب املا کی غلطیوں سے بھری ہیں کوئی پرسان حال نہیں۔کچھ عرصہ قبل ایک خبر آئی کہ ایک ہیلپ لائن سروس متعارف کروائی جا رہی ھے جہاں عام شہری بھی بذریعہ فون اپنی شکایات درج کروا سکے گا بہت خوش آئند فیصلہ تھا مگر ہمیشہ کی طرح فا ئلوں اور بیانات کی حد تک رہ گیا اسکول سیکیور ٹی کے حوالے سے بات ہوئی تو ایک بیان منسوب صدیقی صاحب کا آگیا کے ایک ہفتہ میں غیر رجسٹرڈ اسکول کی فہرستں مرتب کی جا رہی ہیں مگر وہ بیان ہی رہا ۔ ڈائریکٹر یٹ کے نظام کی حا لت زار پر رونا آتا ہے اب جبکہ میٹرک کے امتحانات مارچ میں متوقع ہیں ڈئریکٹریٹ نے اکثر اسکولوں کی رجسٹر یشن روکی ہوئی ہے محسوس یہ ہوتا ہے ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچے اس سال امتحان میں شامل نہین ہو پا ئیں گے ہو سکتا ہے ان اسکولز کی فائل پر کو ئی اعتراض ہو تو اس صورت میں بھی بچوں کے مستقبل سے کھیلنے کے بجا ئے ان اسکولز کو عارضی رجسٹریشن دی جا نی چا ہئے جو ایک سال کے لیے دی جا تی ہے اس عمل سے بچوں کا سال ضا ئع ہو نے سے بچ جا ئے گا۔مگر تا دم تحریر ایسے کو ئی اقدامات دیکھنے مین نہیں آرہے ۔
 
غیر تربیت یا فتہ اساتذہ کی بھر مار اور تربیت یافتہ اسا تذہ کا فقدان بھی اس نظام کی تنزلی کی ایک بڑی وجہ ہے ،اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ وزیر تعلیم ماہر تعلیم ہو جو اس شعبہ کی باریکیوں کو سمجھے ۔گذشتہ دنوں ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی ایک قرار داد لا ئے کہ اسکو لوں کہ زائد فیسوں کی وصولی کے معاملے میں مانیٹر کیا جا ئیاسکولوں کو پا بند کیا جائے کہ فیسوں میں اضا فہ نہ کیا جائے انہین کون بتا ئے گا کہ کوئی اسکول اور کالج بغیر ڈائریکٹریٹ کی اجا زت کے فیس مقرر نہیں کر سکتا چاہے وہ کیمبرج سسٹم ہو،او لیول یا اے لیول ہوقا نون کے مطابق یہ سب ڈائریکٹریٹ مین رجسٹرڈ ہو تے ہیں اور انکی فیس ڈائریکٹریٹ ہی مقرر کرتا ہے وہ منع کردیں کے اتنی زیادہ فیس نا رکھی جائے نطام درست ہو جائے گا۔یہ اور اس جیسے بے شمار مسا ئل ہماری ترقی کی راہ میں بہت بری رکاوٹ ہیں۔سر دست ضروری ہے کہ فوری طور پر کچھ ایسے اقدامات کیئے جا ئین جن اسکولو کی رجسٹر یشن رکی ہو ئی ہے انہیں رجسٹرڈ کیا جائے تا کہ وہ رواں سال امتحان میں بیٹھ سکیں اگر ان پر کو ئی اعتراض ہے تب بھی بچوں کے سال کو ضائع ہونے سے بچا یا جائے انتظامیہ پریس کانفرنس کرنے اور بیا نات دینے کے بجا ئے عملی اقدامات کرے۔یہ بہت اہم با ت ہے آمدن،نشستم،برخا ستم والی پا لیسی ترک کرنی ہو گی پورے شعور اور بیداری کے ساتھ اس شعبے کو آگے بڑھانا ہو گا۔اگر آج بھی ہم خواب غفلت سے نہ جا گے تو آج کا بچہ کل کا معمار قوم ہم سے سوال کرے گا کہ مین تو آگے بڑھنا چا ہتا تھا میرے پاس صلاحیتں تھیں مجھے کیو ں روکا گیا میرا قصور کیاا تھا تب ہمارے پاس سوا شرمندگی کے کوئی جواب نہیں ہو گا۔
نہیں ما یو س اقبال اپنی کشت ویراں سے زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے سا قی
Sheraz Akram
About the Author: Sheraz Akram Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.