حکومت اور پی آئی اے ملازمین میں ٹھن گئی

پاکستان کی قومی فضائی کمپنی ”پی آئی اے“ کے ملازمین اور حکومت کے درمیان نج کاری کے معاملے پر صورتحال مزید بگڑگئی ہے۔ پائلٹوں کی تنظیم ”پالپا“ اور ملازمین یونینیں ایک ہفتے سے سراپا احتجاج ہیں اور مختلف شہروں میں پی آئی اے کے دفاتر پر کام بند ہے۔ پی آئی اے ملازمین نے مطالبات منظور نہ ہونے پر منگل کے روز ملک بھر میں پروازیں بند کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا، جسے روکنے کے لیے حکومت نے لازمی سروسز ایکٹ نافذ کیا، جس کے تحت تمام یونینز غیر موثر ہوگئی ہیں۔ پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا تھا کہ ہڑتال سے قومی فضائی کمپنی کو 75 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے اور اگر یہ صورتحال ایسے ہی رہی تو ادارے کے لیے ملازمین کو تنخواہیں دینا مشکل ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملازمین اپنے ادارے کے مستقبل کا خیال رکھتے ہوئے فلائیٹ آپریشن بند کرنے سے گریز کریں۔ حکومت نے ڈیوٹی پر حاضر نہ ہونے والے پی آئی ملازمین کو معطل کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے، لیکن پی آئی اے انتظامیہ کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت ملازمین نے کاغذی طیاروں کی طرح ہوا میں اڑا دی۔کراچی ، لاہور،فیصل آباد ،کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں ہڑتال جاری رہی۔نجکاری کے فیصلے کے خلاف کہیں تالا بندی تو کہیں احتجاج ہوتا رہا، ملازمین کی بڑی تعداد منگل کے روز بھی دفتر نہ آئی۔ کراچی ،لاہور،فیصل آباد،کوئٹہ سمیت کئی شہروں میں دفاتر کو تالے لگا دیے۔ حکومتی فیصلے کے باوجود پی آئی ملازمین نے منگل کے روز حکومت کے خلاف احتجاج جاری رکھا تو مظاہرین پر پولیس کی جانب سے مظاہرین پر تشدد کیا گیا، جس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ ملک بھر کے سیاسی رہنماﺅں نے پی آئی اے ملازمین پر حکومتی تشدد کی شدید مذمت کی ہے اور اسے آمرانہ اقدام قرار دیا ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے ملک بھر میں فلائٹ آپریشن معطل کرنے کے اعلان کے بعد حکومت نے قومی ادارے میں لازمی سروس ایکٹ نافذ کردیا تھا جس کے نتیجے میں ملک بھر کے ایئر پورٹس پر قومی ایئر لائن کا فلائٹ آپریشن بحال رہا۔ اسلام آباد سمیت کراچی، لاہور اور پشاور میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے نمٹنے کے لیے انتظامات ایک رات قبل سے ہی سنبھال لیے تھے۔ صورت حال اس وقت خراب ہوئی جب کراچی میں پی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ملازمین اپنے شعبے بند کرکے جمع ہونا شروع ہوئے۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد پولیس اور رینجرز نے پہلے ملازمین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں برسائیں اور ہوائی فائرنگ کی۔ کراچی ایئر پورٹ پر پیش آنے والے واقعے کے بعد ملک کے دیگر ہوائی اڈوں پر بھی فرائض سرانجام دینے والے ملازمین میں بھی غم و غصہ پایا گیا اور ملازمین نے احتجاج شروع کر دیا۔احتجاج کرنے کی وجہ سے پی آئی اے ملازمین پر تشدد پر سیاسی رہنماؤں نے گہری تشویش کا اظہار اور اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ سابق صدر آصف زرداری نے پی آئی اے ملازمین پر تشدد کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ضد چھوڑ کر ملازمین کے مطالبات تسلیم کرے۔ انھوں نے واقعے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے اور اپنے رہنماؤں کو ہدایت کی ہے کہ اس واقعے کو پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے، جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹونے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف پی آئی اے ملازمین کا احتجاج روکنے کے لیے آمرانہ اقدام نہ کریں۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ مزدور طبقے کا ساتھ دیتے رہیں گے۔ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ اس طرح کی ظالم حکومت پہلے کبھی نہیں آئی۔ حکومت نے ساری حدیں پارکردیں۔ ایم کیوایم کے رہنما فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ پی آئی اے ملازمین کے تحفظات دورکیے جائیں۔ پی آئی اے کا خسارہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ حکومت مظاہرین سے مذاکرات کرے۔

حکومت نے ہڑتال کرنے والے پی آئی اے ملازمین کے خلاف سخت کارروائی، جب کہ جو ملازمین ہڑتال میں شریک نہیں ہوئے انہیں مراعات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے فہرستیں بھی تیار کرلی گئی ہیں۔ لازمی سروسز ایکٹ کے نفاذ کو ملازمین نے مسترد کرتے ہوئے ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ میں جانے کا اعلان کیا۔ حکومتی فیصلے کے بعد پی آئی اے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ سہیل بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس فیصلے کے بعد کس قسم کی پابندیاں عاید کی جائیں گی، لیکن ہم اپنے پلان کے مطابق چلیں گے اور اگر اس کی وجہ سے ہم پر لاٹھی چارج یا ڈنڈے برسائے گئے تو اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں۔ احتجاج ہمارا حق اور ہم پر امن رہیں گے، لیکن اگر حکومت مذاکرات کرنا چاہے تو اس کے لیے بھی ہم تیار ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ہڑتال کرنے والے قومی ایئر لائن کو زیرو کرنا چاہتے ہیں۔ احتجاج کرنے والے چند لوگ پی آئی اے ملازمین کا روزگار اپنے ذاتی مفادات کے لیے داؤ پر لگا رہے ہیں۔ وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ فرائض انجام دینے والے پی آئی اے کے ہیروز ہیں، جنہیں جلد خوشخبری ملے گی۔ ذرایع کے مطابق ایک طرف قومی ایئرلائن کی نجکاری کی جارہی ہے تو وہیں حکومت نے ادارے کو سدھارنے کے لیے جرمن شہری ہلڈرن برن کو پی آئی اے کا نیا چیف آپریٹنگ افسر مقرر کردیا، ترجمان پی آئی اے دانیال گیلانی نے بھی اس کی تصدیق کردی ہے۔ جرمن شہری ہلڈرن برن کو منافع بخش ادارہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے، جس کے لیے انہیں ماہانہ 50 لاکھ روپے تنخواہ دینے کے علاوہ پرکشش مراعات بھی دی جائیں گی۔

واضح رہے کہ قومی اسمبلی میں 21 جنوری کو 6 بل پیش ہوئے تھے، جن میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کے حوالے سے بھی ایک بل شامل تھا، جس میں پی آئی اے کو پبلک لمیٹڈ کمپنی میں تبدیل کرنے کا بل بھی شامل تھا، اس بل کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کارپوریشن کو پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کمپنی لمیٹڈ میں تبدیل کیا جائے گا۔ یہ بل سامنے آتے ہی ملک بھر میں پی آئی اے کے ملازمین کی تنظیموں نے احتجاج شروع کر دیا۔ پی آئی اے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے سربراہ کپیٹن سہیل بلوچ کا کہنا تھا کہ پاس کردہ ترمیمی بل کو فی الفور واپس لیا جائے، جبکہ کسی اسٹرٹیجک شراکت داری یا ایک فیصد شیئرز کی فروخت سمیت نجکاری کی کوئی شکل قبول نہیں کی جائے گی۔ قومی ایئرلائن کے ملازمین کو پی آئی اے کی بحالی کا موقع دیا جائے، اگر ملازمین ناکام ہوجائیں تو حکومت جو چاہے فیصلے کرلے۔ حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی تجویز چھ ماہ کے لیے موخر کردی ہے اور جون میں نجکاری کی جائے گی، جبکہ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل مل کی نجکاری نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت حکومت کو اس سال کے جون تک پی آئی اے کی نجکاری کرنا ہے۔ سیاسی رہنماﺅں نے پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی تو مزاحمت کریں گے۔ رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ حکومت قومی اداروں میں سدھار لانے کی بجائے ان کی نجکاری کر رہی ہے۔ حکومت ایسے اقدامات کرے، جس سے خسارا کم کیا جاسکے، نجکاری اس کا حل نہیں ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پی آئی اے ایک ایسا ادارہ ہے جس کی اصلاح باقی دوسرے تمام اداروں کی نسبت سب سے زیادہ آسانی سے ہوسکتی ہے۔ پی آئی اے کا ملک گیر اور بین الاقومی نیٹ ورک پہلے سے موجود ہے، پیشہ وارانہ ماہر افرادی قوت بھی پہلے سے موجود ہے۔ پالیسی ڈائریکشن میں بہتری ہی پی آئی اے کے اصلاحی عمل کوتیزی سے آگے بڑھا سکتی ہے۔ پی آئی اے میں خسارے کی ایک بڑی وجہ حکومت کی پالیسیاں ہیں، پی آئی اے میں ضرورت سے زیادہ ملازمین ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیا گیا ہے۔ ان میں سے اکثر اپنی ڈیوٹی پرحاضر نہیں ہوتے ، لیکن ان کو بھاری بھرکم تنخواہیں دی جاتی ہیں، جو قومی ادارے کو خسارے کی جانب دھکیلنے کا سبب بنتی ہیں۔ پی آئی اے اور دیگر تمام اداروں کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ختم کی جائیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پی آئی اے کی بہتری نجکاری کرنے میں ہی ہے تو یہ اس فیصلے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے ،کیونکہ کئی ملکوں میں نجکاری کر کے بڑے بڑے اداروں کو مستحکم کیا جاتا ہے، لیکن اس کے لیے حکومت کا مخلص ہونا ضروی ہے اور یہ بھی ضروی ہے کہ حکومت پی آئی اے ملازمین اور قومی قیادت کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638636 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.